Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسۡتَوٰٓى اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا‌ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿14﴾
اور جب موسٰی ( علیہ السلام ) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ۔
و لما بلغ اشده و استوى اتينه حكما و علما و كذلك نجزي المحسنين
And when he attained his full strength and was [mentally] mature, We bestowed upon him judgement and knowledge. And thus do We reward the doers of good.
Aur jab musa ( alh-e-salam ) apni jawani ko phonch gaye aur pooray tawana hogaye hum ney unhen hikmat-o-ilm ata farmaya neki kerney walon ko hum issi tarah badla diya kertay hain.
اور جب موسیٰ اپنی بھرپور توانائی کو پہنچے اور پورے جوان ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم سے نوازا ، اور نیک لوگوں کو ہم یوں ہی صلہ دیا کرتے ہیں ۔
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورے زور پر آیا ( ف۳۱ ) ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا ( ف۳۲ ) اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو ،
جب موسی ( علیہ السلام ) اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کا نشونما مکمل ہوگیا 18 تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا19 ، ہم نے نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔
اور جب موسٰی ( علیہ السلام ) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور ( سنِّ ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ ( نبوّت ) اور علم و دانش سے نوازا ، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 18 یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشوونما مکمل ہوگیا ، یودی روایات میں اس وقت حضرت موسی کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں ۔ کسی نے 18 سال لکھی ہے ، کسی نے 20 سال ، اور کسی نے 40 سال ۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں 40 سال عمر بتائی گئی ہے ۔ ( اعمال 7 ۔ 23 ) لیکن قرآن کسی عمر کی تصریح نہیں کرتا ۔ جس مقصد کے لیے قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہورہا ہے وہ اس زمانے کا ہے جب حضرت موسی پورے شباب کو پہنچ چکے تھے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 19 حکم سے مراد حکمت ، دانائی ، فہم و فراست اور قوت فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں ۔ کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا ( حضرت یوسف ، یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام ) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی ، اور بادشاہ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے ، اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ حضرت موسی کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی ، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورہ شعراء ( آیت 21 ) میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔ اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ موسی نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا ( 7 ۔ 22 ) تلمود کا بیان ہے کہ موسی علیہ السلام فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اٹھے ۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے تھے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ، اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے ، وہ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں ، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے ، انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائما مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا ۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے ۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی ۔ ( اقتباسات تلمود ۔ صفحہ 129 )
گھونسے سے موت حضرت موسیٰ کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا ۔ یعنی نبوت دی ۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کارخ کیا یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے ۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں ۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے ۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا ۔ موسیٰ گھبراگئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے ۔ اللہ نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے ۔ اب کہنے لگے اے اللہ تونے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطافرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا ۔