Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ فَلَنۡ اَكُوۡنَ ظَهِيۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿17﴾
کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا ۔
قال رب بما انعمت علي فلن اكون ظهيرا للمجرمين
He said, "My Lord, for the favor You bestowed upon me, I will never be an assistant to the criminals."
Kehnay lagay aey meray rab! Jesay tu ney mujh per yeh karam farmaya mein bhi abb hergiz kissi gunehgar ka madadgar na bano ga.
موسیٰ نے کہا : میرے پر ورگار ! آپ نے مجھ پر انعام کیا ہے تو میں آئندہ کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا ۔ ( ٨ )
عرض کی اے میرے رب جیسا تو نے مجھ پر احسان کیا تو اب ( ف٤۲ ) ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا ،
موسی ( علیہ السلام ) نے عہد کیا کہ ” اے میرے رب ، یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے 25 اس کے بعد اب میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا ۔ ”26
۔ ( مزید ) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر ( اپنی مغفرت کے ذریعہ ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 25 یعنی یہ احسان کہ میرا فعل چھپا رہ گیا اور دشمن قوم کے کسی فرد نے مجھ کو نہیں دیکھا ، اور مجھے بچ نکلنے کا موقع مل گیا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 26 حضرت موسی کا یہ عہد بہت وسیع الفاظ میں ہے ۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ میں کسی مجرم فرد کا مددگار نہیں بنوں گا ، بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ میری امداد و اعانت کبھی ان لوگوں کے ساتھ نہ ہوگی ، جو دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور متعدد دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسی نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا عہد کرلیا ، کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا ، انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ظالم سلطنت کا کل پرزہ بن کر رہے اور اس کی حشمت و طاقت میں اضافے کا موجب بنے ۔ علماء اسلام نے بالعموم حضرت موسی کے اس عہد سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مومن کو ظالم کی اعانت سے کامل اجتناب کرنا چاہیے ، خواہ وہ ظالم فرد ہو یا گروہ یا حکومت و سلطنت ، مشہور تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرا بھائی بنی امیہ کی حکومت میں کونے کے گورنر کا کاتب ( سکرٹری ) ہے ۔ معاملات کے فیصلے کرنا اس کا کام نہیں ہے ۔ البتہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اس کے قلم سے جاری ہوتے ہیں ۔ یہ نوکری وہ نہ کرے تو مفلس ہوجائے ۔ حضرت عطاء نے جواب میں یہی آیت پڑھی اور فرمایا تیرے بھائی کو چاہیے کہ اپنا قلم پھینک دے ، رزق دینے والا اللہ ہے ۔ ایک اور کاتب نے عامر شعبی سے پوچھا اے ابو عمرو ، میں بس احکام لکھ کر جاری کرنے کا ذمہ دار ہوں ، فیصلے کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں ، کیا یہ رزق میرے لیے جائز ہے؟ انہوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کا فیصلہ کیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کا مال ناحق ضبط کیا جائے ، یا کسی کا گھر گرانے کا حکم دیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ، پھر امام موصوف نے یہ آیت پڑھی جسے سنتے ہی کاتب نے کہا آج کے بعد میرا قلم بنی امیہ کے احکام جاری کرنے میں استعمال نہ ہوگا امام نے کہا پھر اللہ بھی تمہیں رزق سے محروم نہ فرمائے گا ۔ ضحاک کو تو عبدالرحمن بن مسلم نے صرف اس خدمت پر بھیجنا چاہا تھا کہ وہ بخارا کے لوگوں کی تنخواہیں جاکر بانٹ آئیں ، مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا ، ان کے دوستوں نے کہا آخر اس میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا میں ظالموں کے کسی کام میں بھی مددگار نہیں بننا چاہتا ( روح المعانی ، ج 2 ، ص 49 ) امام ابو حنیفہ کا یہ واقعہ ان کے تمام مستند سوانح نگاروں ، الموفق المکی ، ابن البزاز اکروری ، ملا علی قاری وغیرہم نے لکھا ہے کہ انہی کی تلقین پر منصور کے کمانڈر انچیف حسن بن قحطبہ نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا کہ آج تک میں نے آپ کی سلطنت کی حمایت کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ اگر خدا کی راہ میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ، لیکن اگر یہ ظلم کی راہ میں تھا تو میں اپنے نامہ اعمال میں مزید جرائم کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا ۔