Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
فَجَآءَتۡهُ اِحۡدٰٮہُمَا تَمۡشِىۡ عَلَى اسۡتِحۡيَآءٍ  قَالَتۡ اِنَّ اَبِىۡ يَدۡعُوۡكَ لِيَجۡزِيَكَ اَجۡرَ مَا سَقَيۡتَ لَـنَا‌ ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَقَصَّ عَلَيۡهِ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ‌ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿25﴾
اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے ( جانوروں ) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی ۔
فجاءته احدىهما تمشي على استحياء قالت ان ابي يدعوك ليجزيك اجر ما سقيت لنا فلما جاءه و قص عليه القصص قال لا تخف نجوت من القوم الظلمين
Then one of the two women came to him walking with shyness. She said, "Indeed, my father invites you that he may reward you for having watered for us." So when he came to him and related to him the story, he said, "Fear not. You have escaped from the wrongdoing people."
Itnay mein dono aurton mein say aik unn ki taraf sharam-o-haya say chalti hui aaee kehnay lagi kay meray baap aap ko bula rahey hain takay aap ney humaray ( janwaron ) ko jo pani pilaya hai uss ki ujrat den jab hazrat musa ( alh-e-salam ) unn kay pass phonchay aur unn say apna sara haal biyan kiya to woh kehnay lagay abb na darr tu ney zalim qom say nijat paee.
تھوڑی دیر بعد ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کے پاس شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی ، ( ١٥ ) کہنے لگی : میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں ، تاکہ آپ کو اس بات کا انعام دیں کہ آپ نے ہماری خاطر جانوروں کو پانی پلایا ہے ، ( ١٦ ) چنانچہ جب وہ عورتوں کے والد کے پاس پہنچے اور ان کو ساری سرگذشت سنائی ، تو انہوں نے کہا : کوئی اندیشہ نہ کرو ، تم ظالم لوگوں سے بچ آئے ہو ۔
تو ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی ( ف٦۳ ) بولی میرا باپ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہیں مزدوری دے اس کی جو تم نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے ( ف٦٤ ) جب موسیٰ اس کے پاس آیا اور اسے باتیں کہہ سنائیں ( ف٦۵ ) اس نے کہا ڈریے نہیں ، آپ بچ گئے ظالموں سے ( ف٦٦ )
﴿کچھ دیر نہ گزری تھی کہ﴾ ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی 35 اور کہنے لگی ” میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں ۔ ” 36 موسی ( علیہ السلام ) جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سنایا تو اس نے کہا ” کچھ خوف نہ کرو ، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو ۔ ”
پھر ( تھوڑی دیر بعد ) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک ( لڑکی ) آئی جو شرم و حیاء ( کے انداز ) سے چل رہی تھی ۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس ( محنت ) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے ( بکریوں کو ) پانی پلایا ہے ۔ سو جب موسٰی ( علیہ السلام ) ان ( لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام ) کے پاس آئے اور ان سے ( پچھلے ) واقعات بیان کئے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 35 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ ۔ وہ شرم و حیا کے ساتھ لچتی ہوئی اپنا منہ گھونٹ سے چھپائے ہوئے آئی ۔ ان بے باک عورتوں کی طرح درانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں ۔ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر سے نقل کی ہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور جو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا ، چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اور گھر سے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعا خلاف تھا ۔ حضرت عمر صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بے حیائی قرار دے رہے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 36 یہ بات بھی شرم و حیا ہی کی وجہ سے انہوں نے کہی ، کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضرور تھی ، ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کی ہو تو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی ۔ اور پھر اس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسی علیہ السلام جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے ، بے سروسامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ مدین تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے ۔ بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے برا حال ہوگا ، اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیار غیر میں کوئی ٹھکانا میسر آئے اور کوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میں رہ سکیں ، اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سن لینے باوجود کہ اس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جارہا ہے ، حضرت موسی نے جانے میں تامل نہ کیا ۔ انہوں نے خٰال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے ، اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہرہ کر کے اپنے رب کے فراہم کردہ سامان میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت موسیٰ اور شعیب علیہما السلام کا معاہدہ ان دونوں بچیوں کی بکریوں کو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی پلادیا تو یہ اپنی بکریاں لیکر واپس اپنے گھر گئیں ۔ باپ نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آگئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ آج کیا بات ہے؟ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا ۔ آپ نے اسی وقت ان دونوں میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ ۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں اور جس طرح گھر گھر ہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم وحیا سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی ۔ منہ بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور صداقت کو دیکھئے کہ صرف یہی نہی کہاکہ میرے ابا آپ کو بلا رہے ہیں کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ دیا کہ میرے والد آپ کی مزدوری دینے کے لئے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بلا رہے ہیں ۔ جو آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلاکر ہمارے ساتھ کیا ہے ۔ کلیم اللہ کو جو بھوکے پیاسے تن تنہا مسافر اور بےخرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں آئے ۔ انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بلاکم وکاست سنایا ۔ انہوں نے دل جوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے؟ ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے ۔ یہاں ان کی حکومت نہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام تھے جو مدین والوں کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے ۔ یہ مشہور قول امام حسن بصری رحمۃ اللہ کا ہے اور بہت سے علماء بھی یہی فرماتے ہیں ۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا شعیب کی قوم اور موسیٰ کے سسرال والوں کو مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت شعیب کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب کے ایک مومن مرد تھے ۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب علیہ السلام کا زمانہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے ۔ ان کا قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے کہ ( وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ 89 ؀ ) 11-ھود:89 ) لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ۔ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہلاکت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زما نہ ہے ۔ تقریبا چار سو سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت شعیب کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی ۔ ان کا مقصد غالبا اس اعتراض سے بچنا ہے واللہ اعلم ۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام ہی ہوئے تو چاہئے تھا کہ قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا ۔ ہاں البتہ بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے ۔ لیکن ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں گے ان شاء اللہ تعالٰی ، بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون بتلایا گیا ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن مسعود کے صاحبزادے فرماتے ہیں ثیرون حضرت شعیب کے بھتیجے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی اور ایسا ہے نہیں ۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک نے باپ کی توجہ دلائی ۔ یہ توجہ دلانے والی صاحبزادی وہی تھیں جو آپ کو بلانے گئی تھیں ۔ کہا کہ انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے والا اچھا ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو ۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا تم نے یہ کیسے جان لیا کہ ان میں یہ دونوں وصف ہیں ۔ بچی نے جواب دیا کہ دس آدمی مل کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو ہٹادیا ان سے انکی قوت کا اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے ۔ امانت داری کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس آنے لگی تو اس لئے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی انہوں نے کہاتم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لونگا کہ مجھے اس راستے چلنا چاہیے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین شخص کی سی زیرکی ، معاملہ فہی ، دانائی اور دوربینی کسی اور میں نہیں پائی گئی ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خلافت کے لئے جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کیا ۔ حضرت یوسف کے خریدنے والے مصری جنہوں نے بیک نظر حضرت یوسف کو پہچان لیا اور جاکر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو ۔ اور اس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت موسی کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے ۔ یہ سنتے ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں اس مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردیتا ہوں کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں ۔ ان دونوں کا نام صفورا اور اولیا تھا یا صفورا اور شرفایا صفوررا ورلیا ۔ اصحاب ابی حنیفہ رحمۃ اللہ نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دوغلاموں میں سے ایک کو ایک سوکے بدلے فروخت کرتا ہوں اور خریدار منظور کرلے تو یہ بیع ثابت اور صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس بزرگ نے کہا کہ آٹھ سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ کو اختیار ہے دس سال کا ۔ اگر آپ اپنی خوشی سے دوسال تک اور بھی میراکام کریں تو اچھا ہے ورنہ آپ پر لازمی نہیں ۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں آپ کو تکلیف نہ دونگا ۔ امام اوزاعی نے اس سے استدلال کرکے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کہے میں فلاں چیز کو نقد دس اور ادھار بیس پر بیچتا ہوں تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھارلے ۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب لے رہے ہیں جس میں ہے جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے اسکے لئے کمی والی بیع ہے یاسود ۔ لیکن یہ مذہب غور طلب ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں واللہ اعلم ۔ اصحاب امام محمد نے اس آیت سے استدلال کرکے کہا ہے کہ کھانے پینے اور کپڑے پر کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگالینا درست ہے ۔ اس کی دلیل میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھالیاکرے گا اس میں حدیث لائیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس کی تلاوت کی جب حضرت موسیٰ کے ذکر تک پہنچے تو فرمانے لگے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیٹ کے بھرنے اور اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے آٹھ سال یادس سال کے لئے اپنے آپ کو ملازم کرلیا ۔ اس حدیث کا راوی مسلمہ بن علی خشنی ہے جو ضعیف ہے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں ۔ کلیم اللہ نے برزگ کی اس شرط کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ ہم تم میں یہ طے شدہ فیصلہ ہے مجھے اختیار ہوگا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا آٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق مزدوری مجھ پر لازم نہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے اس معاملہ پر گواہ کرتے ہیں اسی کی کارسازی کافی ہے ۔ تو گو دس سال پورا کرنا مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری آٹھ سال ہیں جیسے منی کے آخری دو دن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے اور جیسے کہ حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا جو بکثرت روزے رکھاکرتے تھے کہ اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے باوجودیکہ دوسری دلیل سے رکھنا افضل ہے ۔ چنانچہ اس کی دلیل بھی آچکی ہے کہ حضرت موسیٰ نے دس سال ہی پورے کئے ۔ بخاری شریف میں ہے سعید بن جبیر سے یہودیوں نے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال پورے کئے تھے یادس سال؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ نے پوری کی یعنی دس سال ۔ اللہ تعالیٰ کے نبی جو کہتے ہیں پورا کرتے ہیں ۔ حدیث فنون میں ہے کہ سائل نصرانی تھا لیکن بخاری میں جو ہے وہی اولیٰ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کون سی مدت پوری کی تھی تو جواب ملا کہ ان دونوں میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا آپ نے جبرائیل سے پوچھا جبرائیل نے اور فرشتے سے یہاں تک کہ فرشتے نے اللہ سے ۔ اللہ نے جواب دیا کہ دونوں میں ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا کہ یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں میں جو چھوٹی تھیں اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت دراز کو پوراکرنا بتایا پھر فرمایا کہ جب موسیٰ حضرت شیعب علیہ السلام سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے ہمارا گزارہ ہوجائے آپ نے اپنے والد سے سوال کیا جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب تمہاری حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے سب چت کبرے جن کی نسل اب تک تلاش کرنے سے مل سکتی ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت شعیب کی سب بکریاں کالے رنگ کی خوبصورت تھیں ۔ جتنے بچے ان کے اس سال ہوئے سب کے سب بےعیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے تھنوں والے اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار عبد اللہ بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں ۔ چنانچہ اور سند سے یہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا مروی ہے ۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک بکری کے ۔ جن سب کو آپ لے گئے ۔ علیہ السلام