Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
قَالَ اِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُنۡكِحَكَ اِحۡدَى ابۡنَتَىَّ هٰتَيۡنِ عَلٰٓى اَنۡ تَاۡجُرَنِىۡ ثَمٰنِىَ حِجَجٍ‌ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِكَ‌ۚ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَيۡكَ‌ؕ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿27﴾
اس بزرگ نے کہا میں اپنی دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح ٰمیں دینا چاہتا ہوں اس ( مہر پر ) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں ۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں ، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر مجھے بھلا آدمی پائیں گے ۔
قال اني اريد ان انكحك احدى ابنتي هتين على ان تاجرني ثمني حجج فان اتممت عشرا فمن عندك و ما اريد ان اشق عليك ستجدني ان شاء الله من الصلحين
He said, "Indeed, I wish to wed you one of these, my two daughters, on [the condition] that you serve me for eight years; but if you complete ten, it will be [as a favor] from you. And I do not wish to put you in difficulty. You will find me, if Allah wills, from among the righteous."
Uss buzrug ney kaha mein apni inn dono larkiyon mein say aik ko aap kay nikkah mein dena chahata hun iss ( mehar per ) kay aap aath saal tak mera kaam kaaj keren. Haan agar aap dus saal pooray keren to yeh aap ki taraf say bator ehsan kay hai mein yeh hergiz nahi chahata kay aap ko kissi mushaqqat mein dalon Allah ko manzoor hai to aagay chal ker aap mujhay bhala aadmi payen gay.
ان کے باپ نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک سے تمہارا نکاح کردوں ۔ بشرطیکہ تم آٹھ سال تک اجرت پر میرے پاس کام کرو ، ( ١٨ ) پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہوگا ، اور میرا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ تم پر مشقت ڈالوں ، ان شاء اللہ تم مجھے ان لوگوں میں سے پاؤ گے جو بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں ۔
کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں ( ف۷۰ ) اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو ( ف۷۱ ) پھر اگر پورے دس برس کرلو تو تمہاری طرف سے ہے ( ف۷۲ ) اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا ( ف۷۳ ) قریب ہے انشاء اللہ تم مجھے نیکوں میں پاؤ گے ( ف۷٤ )
اس کے باپ نے 38﴿موسی ( علیہ السلام ) سے ﴾ کہا ” میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو اور اگر دس سال تک پورے کر دو تو یہ تمہاری مرضی ہے ۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا ۔ تم انشاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے ۔ ”
انہوں نے ( موسٰی علیہ السلام سے ) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس ( مَہر ) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں ، پھر اگر آپ نے دس ( سال ) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے ( احسان ) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا ، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے
سورة القصص حاشیہ نمبر :38 یہ بھی ضروری نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فورا حضرت موسی سے یہ بات کہہ دی ہو ، قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی کہ آدمی شریف سہی مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان ، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے ( جیسا کہ حضرت موسی کا قصہ سن کر انہیں معلوم ہوچکا ہوگا ) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے ۔ اس رائے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسی سے یہ بات کہی ہوگی ۔ یہاں پھر بنی اسرائیل کی ایک کرم فرمائی ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے جلیل القدر نبی ، اپنے سب سے بڑے محسن اور قومی ہیرو پر کی ہے ، تلمود میں کہا گیا ہے کہ موسی رعویل کے ہاں رہنے لگے اور وہ اپنے میزبان کی بیٹی صفورہ پر نظر عنایت رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے اس سے بیاہ کرلیا ۔ ایک اور یہودی روایت جو جیوش انسائیکلوپیڈیا میں نقل کی گئی ہے ، یہ ہے کہ حضرت موسی نے جب یتھرو کو اپنا سارا ماجرا سنایا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت تباہ ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئی تھیں ، اس لیے اس نے فورا حضرت موسی کو قید کرلیا تاکہ انہیں فرعون کے حوالہ کر کے انعام حاصل کرے ، سات یا دس سال تک وہ اس کی قید میں رہے ، ایک تاریک تہ خانہ تھا جس میں وہ بند تھے ، مگر یتھرو کی بیٹی زفورا ( یا صفورا ) جس سے کنویں پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی ، چپکے چپکے ان سے قید خانہ میں ملتی رہی اور انہیں کھانا پانی بھی پہنچاتی رہی ، ان دونوں میں شادی کی خفیہ قرارداد ہوچکی تھی ، سات یا دس سال کے بعد زفورا نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنی مدت ہوئی آپ نے ایک شخص کو قید میں ڈال دیا تھا اور پھر اس کی خبر تک نہ لی ، اب تک اسے مرجانا چاہیے تھا ، لیکن اگر وہ اب بھی زندہ ہو تو ضرور کوئی کدا رسیدہ آدمی ہے ، یتھرو اس کی یہ بات سن کر جب قید خانے میں گیا تو حضرت موسی کو زندہ دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ وہ معجزے سے زندہ ہیں ، تب اس نے زفورا سے ان کی شادی کردی ۔ جو مغربی مستشرقین قرآنی قصوں کے مآخذ ڈھونڈتے پھرتے ہیں انہیں کہیں یہ کھلا فرق بھی نظر آتا ہے جو قرآن کے بیان اور اسرائیلی روایات میں پایا جاتا ہے؟