Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
قَالَ ذٰ لِكَ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكَ‌ ؕ اَيَّمَا الۡاَجَلَيۡنِ قَضَيۡتُ فَلَا عُدۡوَانَ عَلَـىَّ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوۡلُ وَكِيۡلٌ‏ ﴿28﴾
موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ، ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ( گواہ اور ) کارساز ہے ۔
قال ذلك بيني و بينك ايما الاجلين قضيت فلا عدوان علي و الله على ما نقول وكيل
[Moses] said, "That is [established] between me and you. Whichever of the two terms I complete - there is no injustice to me, and Allah , over what we say, is Witness."
Musa ( lah-e-salam ) ney kaha khair to yeh baat meray aur aap kay darmiyan pukhta hogaee mein inn dono muddaton mein say jissay poora keron mujh per koi ziyadti na ho hum yeh jo kuch ker rahey hain iss per Allah ( gawah aur ) kaar saaz hai.
موسیٰ نے کہا : یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی ۔ دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کردوں ، تو مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہوگی ، اور جو بات ہم کر رہے ہیں ، اللہ اس کا رکھوالا ہے ۔
موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان اقرار ہوچکا ، میں ان دونوں میں جو میعاد پوری کردوں ( ف۷۵ ) تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں ، اور ہمارے اس کہے پر اللہ کا ذمہ ہے ( ف۷٦ )
موسی ( علیہ السلام ) نے جواب دیا ” یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی ۔ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کر دوں اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو ، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے ۔ ” ؏ ۳ 39
موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: یہ ( معاہدہ ) میرے اور آپ کے درمیان ( طے ) ہوگیا ، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا ، اور اللہ اس ( بات ) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 39 بعض لوگوں نے حضرت موسی اور لڑکی کے والد کی اس گفتگو کو نکاح کا ایجاب و قبول سمجھ لیا ہے اور یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کا مہر قرار پاسکتی ہے؟ اور کیا عقد نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ آیات زیر بحث کی عبارت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ یہ عقد نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھی جو نکاح سے پہلے تجویز نکاح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے ۔ آخر یہ نکاح کا ایجاب و قبول کیسے ہوسکتا ہے جبکہ یہ تعین بھی اس میں نہ کیا گیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میں سے کون سی نکاح میں دی جارہی ہے ۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھا کہ لڑکی کے باپ نے کہا میں اپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کردینے کے لیے تیار ہوں ، بشرطیکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سال میرے ہاں رہ کر میرے گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاؤ گے ، کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں ، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے جو میری جائداد کا انتظام سنبھالے ، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبورا باہر نکالتا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ دادا میرا دست و بازو بن کر رہے ، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کے لیے تیار ہو اور شادی کے بعد ہی بیوی کو لے کر چلے جانے کا ارادہ نہ رکھتے ہو تو میں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سے کردوں گا ۔ حضرت موسی اس وقت کود ایک ٹھکانے کے طالب تھے ، انہوں نے اس تجویز کو قبول کرلیا ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہدے کی صورت تھی جو نکاح سے پہلے فریقین میں طے ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اصل عقد نکاح قاعدے کے مطابق ہوا ہوگا اور اس میں مہر بھی باندھا گیا ہوگا ، اس عقد میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی ۔