Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
فَلَمَّا قَضٰى مُوۡسَى الۡاَجَلَ وَسَارَ بِاَهۡلِهٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا‌ۚ قَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡۤا اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا‌ لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ‏ ﴿29﴾
جب حضرت مو سٰی علیہ السلام نے مدت پوری کر لی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی ۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو ۔
فلما قضى موسى الاجل و سار باهله انس من جانب الطور نارا قال لاهله امكثوا اني انست نارا لعلي اتيكم منها بخبر او جذوة من النار لعلكم تصطلون
And when Moses had completed the term and was traveling with his family, he perceived from the direction of the mount a fire. He said to his family, "Stay here; indeed, I have perceived a fire. Perhaps I will bring you from there [some] information or burning wood from the fire that you may warm yourselves."
Jab hazrat musa ( alh-e-salam ) ney muddat poori ker liaur apnay ghar walon ko ley ker chalay to koh-e-toor ki taraf aag dekhi. Apni biwi say kehnay lagay thero! Mein ney aag dekhi hai boht mumkin hai kay mein wahan say koi khabar laaon ya aag ka koi angara laon takay tum seenk lo.
پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کرلی ، اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے ( ١٩ ) تو انہوں نے کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی ۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے آؤں ، یا آگ کا کوئی انگارہ اٹھا لاؤں تاکہ تم گرمائی حاصل کرسکو ۔
پھر جب موسیٰ نے اپنی میعاد پوری کردی ( ف۷۷ ) اور اپنی بی بی کو لے کر چلا ( ف۷۸ ) طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی ( ف۷۹ ) اپنی گھر والی سے کہا تم ٹھہرو مجھے طور کی طرف سے ایک آگ نظر پڑی ہے شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤں ( ف۸۰ ) یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں کہ تم تاپو ،
جب موسی ( علیہ السلام ) نے مدت پوری کر دی 40 اور اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی ۔ 41 اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ” ٹھہرو ، میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارا ہی اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو ۔ ”
پھر جب موسٰی ( علیہ السلام ) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے ( تو ) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی ( وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی ) ، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم ( یہیں ) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے ۔ شاید میں تمہارے لئے اس ( آگ ) سے کچھ ( اُس کی ) خبر لاؤں ( جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں ) یا آتشِ ( سوزاں ) کی کوئی چنگاری ( لادوں ) تاکہ تم ( بھی ) تپ اٹھو
سورة القصص حاشیہ نمبر : 40 حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت موسی نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی ، ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ بات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ حضور نے فرمایا : قضی موسی اتم الاجلین وا طیبھما عشر شنین ۔ موسی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جو زیادہ کامل اور ان کے خسر کے لیے زیاہ خوشگوار تھی ، یعنی دس سال ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 41 اس سفر کا رخ طور کی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضرت موسی اپنے اہل و عیال کو لیکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے ۔ اس لیے کہ طور اس راستے پر ہے جو مدین سے مصر کی طرف جاتا ہے ، غالبا حضرت موسی نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزر چکے ہیں ، وہ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کے زمانے میں وہ مصر سے نکلے تھے ، اب اگر خاموشی کے ساتھ وہاں چلا جاؤں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں تو شاید کسی کو میرا پتہ بھی نہ چلے ۔ بائیبل کا بیان یہاں واقعات کی ترتیب میں قرآن کے بیان سے بالکل مختلف ہے ، وہ کہتی ہے کہ حضرت موسی اپنے خسر کی بکریاں چراتے ہوئے بیابان کے پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک آ نکلے تھے ، اس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اور انہیں رسالت کے منصب پر مامور کر کے مصر جانے کا حکم دیا ، پھر وہ اپنے خسر کے پاس واپس آگئے اور ان سے اجازت لے کر اپنے بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے ( خروج 3 ۔ 1 ۔ 4 ۔ 18 ) اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسی مدت پوری کرنے کے بعد پنے اہل و عیال کو لیکر مدین سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں اللہ تعالی کی مخاطبت اور منصب نبوت پر تقرر کا معاملہ پیش آیا ۔ بائیبل اور تلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسی کے زمانہ قیام مدین میں وہ فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اور اب ایک دوسرا فرعون مصر کا فرمانروا تھا ۔
دس سال حق مہر پہلے یہ بیان گزرچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال پورے کئے تھے ۔ قرآن کے اس لفظ الاجل سے بھی اس کی طرف اشارہ ہے واللہ اعلم ۔ بلکہ حضرت مجاہد کا تو قول ہے کہ دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے ۔ اس قول میں یہ صرف تنہا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خیال اور شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل آؤں چنانچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے لگیں اور سخت اندھیرا ہوگیا ۔ آپ ہر چند چراغ جلاتے تھے مگر روشنی نہیں ہوتی تھی ۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں وہاں جاتا ہوں اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت کرلونگا اس لئے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں ۔ یا میں وہاں سے کچھ آگ لے آؤنگا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا علاج ہوجائے ۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے آواز سنائی دی ۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے ( وماکنت بجانب الغربی ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ آگ کے قصد سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ کے دائیں طرف تھا اور ایک سرسبز ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آرہی تھی جو پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی ۔ یہ وہاں جاکر اس حالت کو دیکھ کر حیران وششدہ رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ، اسی وقت اللہ کی طرف سے آواز آئی ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو جس میں سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ سرسبز وشاداب ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہاہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا درخت تھا اور آپ کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی ۔ کلیم اللہ نے سنا کہ آواز آرہی ہے کہ اے موسیٰ میں ہوں رب العالمین ۔ جو اس وقت تجھ سے کلام کر رہا ہوں ۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بےمثل ہوں اور وحدہ لاشریک ہوں ۔ میری ذات ، میری صفات ، میرے افعال میرے اقوال میں میرا کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں ۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان سے دور ہوں ۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ اپنی لکڑی زمین پر گرادو اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ۔ اور آیت میں ہے کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور دوسرے بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں ۔ اب مطلع فرمایا کہ لکڑی کو احساس دلاکر پھر زمین پر انہی کے ہاتھوں پھنکوائی ۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا اژدہا بن کر ادھر ادھر فراٹے بھرنے لگی ۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ بولنے والا واقعی اللہ ہی ہے جوقادر مطلق ہے وہ جس چیز کو جو فرمادے ٹل نہیں سکتا ۔ سورۃ طہ کی تفسیر میں اس کا بیان بھی پورا گزرچکا ہے ۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جارہا تھا منہ کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا ۔ جہاں سے گزرتا تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے اسے دیکھ کر حضرت موسیٰ سہم گئے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ وہیں اللہ کی طرف سے آواز آئی موسیٰ ادھر آ ڈر نہیں تو میرے امن میں ہے ۔ اب حضرت موسیٰ کا دل ٹھہر گیا ۔ اطمینان سے بےخوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آکر باادب کھڑے ہوگئے ۔ یہ معجزہ عطافرماکر پھر دوسرا معجزہ یہ دیا کہ حضرت موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتا اور بہت بھلا معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی طرح سفید ہوجائے ۔ یہ بھی بحکم الٰہی آپ نے وہی کیا اور اپنے ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا ۔ پھر حکم دیا کہ تمہیں اس سانپ سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے بازو اپنے بدن سے ملالو ڈر خوف جاتا رہے گا ۔ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر اللہ کے اس فرمان کے ماتحت رکھ لے تو انشاء اللہ اس کا خوف ڈر جاتا رہے گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت موسیٰ کے دل پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے ۔ دعا ( اللھم انی ادرابک فی نحرہ واعوذبک من شرہ ) ۔ اے اللہ میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں ۔ اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے رعب وخوف ہٹالیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھر تو اسکا یہ حال ہوگیا تھا کہ حضرت موسیٰ کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہوجاتا تھا ۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ اور ید بیضاء دے کر اللہ نے فرمایا کہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ ۔