Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّىۡ نَذَرۡتُ لَـكَ مَا فِىۡ بَطۡنِىۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّىۡ ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‌‏ ﴿35﴾
جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے ، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی ، تو میری طرف سے قبول فرما ، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ۔
اذ قالت امرات عمرن رب اني نذرت لك ما في بطني محررا فتقبل مني انك انت السميع العليم
[Mention, O Muhammad], when the wife of 'Imran said, "My Lord, indeed I have pledged to You what is in my womb, consecrated [for Your service], so accept this from me. Indeed, You are the Hearing, the Knowing."
Jab imran ki biwi ney kaha aey meray rab! Meray pet mein jo kuch hai ussay mein ney teray naam azad kerney ki nazar maani tu meri taraf say qabool farma! Yaqeenan tu khoob sunney wala aur poori tarah janney wala hai.
۔ ( چنانچہ اللہ کے دعا سننے کا وہ واقعہ یاد کرو ) جب عمران کی بیوی نے کہا تھا کہ : یا رب ! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے ہر کام سے آزاد کر کے تیرے لیے وقف رکھوں گی ۔ میری اس نذر کو قبول فرما ۔ بیشک تو سننے والا ہے ، ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔
جب عمران کی بی بی نے عرض کی ( ف٦۸ ) اے رب میرے! میں تیرے لئے منت مانتی ہو جو میرے پیٹ میں ہے کہ خالص تیری ہی خدمت میں رہے ( ف٦۹ ) تو تو مجھ سے قبول کرلے بیشک تو ہی سنتا جانتا ،
﴿وہ اس وقت سن رہا تھا﴾ جب عمران کی عورت 32 کہہ رہی تھی کہ میرے پرور دگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں ، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا ۔ میری اس پیشکش کو قبول فرما ۔ تو سننے اور جاننے والا ہے ۔ 33
اور ( یاد کریں ) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے ( دیگر ذمہ داریوں سے ) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے ( یہ نذرانہ ) قبول فرما لے ، بیشک تو خوب سننے خوب جاننے والا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :32 اگر عمران کی عورت سے مراد”عمران کی بیوی“ لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ عمران نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، بلکہ یہ حضرت مریم کے والد تھے ، جن کا نام شاید عمران ہوگا ۔ ( مسیحی روایات میں حضرت مریم کے والد کا نام یوآخیم Ioachim لکھا ہے ) اور اگر عمران کی عورت سے مراد آل عمران لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ معلومات نہیں ہے جس سے ہم قطعی طور پر ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے سکیں ، کیونکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور ان کی والدہ کس قبیلے کی تھیں ۔ البتہ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں تو پھر ”عمران کی عورت“ کے معنی قبیلہ عمران کی عورت ہی درست ہوں گے ، کیونکہ انجیل لوقا میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں ( لوقا۵:١ ) ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :33 یعنی تو اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی نیتوں کے حال سے واقف ہے ۔
مریم بنت عمران حضرت عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ تھیں حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا ، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہو گیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی ، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے ، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہو گا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کر چکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے ، واللہ اعلم بما وضعت بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی حضرت حسنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور تا کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے ، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے ، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں ، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے ، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا ، اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا ، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں؟ فرمایا عبدالرحمن نام رکھو ( بخاری ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہوگئے بچہ کا خیال نہ رہا ۔ حضرت ابو اسید نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو ( یعنی ڈرا دینے والا ) مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے ، اور بچہ کا سر منڈوائے ، ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم ، لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی واللہ اعلم ۔ حضرت مریم علیہما السلام کی اس دعا کو قبول فرمایا ، چنانچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اس سے بچے رہے ، اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو آیت ( وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران:36 ) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے ، یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے ، ایک حدیث میں صرف عیسیٰ کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا ۔