Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ قَتَلۡتُ مِنۡهُمۡ نَفۡسًا فَاَخَافُ اَنۡ يَّقۡتُلُوۡنِ‏ ﴿33﴾
موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا پروردگار! میں نے اِن کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا ۔ اب مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے بھی قتل کر ڈالیں ۔
قال رب اني قتلت منهم نفسا فاخاف ان يقتلون
He said, "My Lord, indeed, I killed from among them someone, and I fear they will kill me.
Musa ( alh-e-salam ) ney kaha perwerdigar! Mein ney unn ka aik aadmi qatal ker diya tha. Abb mujhay andesha hai kay woh mujhay bhi qatal ker daalen.
موسیٰ نے کہا : میرے پروردگار ! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کردیا تھا ، اس لیے مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں ۔
عرض کی اے میرے رب! میں نے ان میں ایک جان مار ڈالی ہے ( ف۹۱ ) تو ڈرتا ہوں کہ مجھے قتل کردیں ،
موسی ( علیہ السلام ) نے عرض کیا ” میرے آقا ، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں ، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے ۔ 47
۔ ( موسٰی علیہ السلام نے ) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 47 اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس ڈر سے میں وہاں نہیں جانا چاہتا ۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ حضور کی طرف سے ایسا کوئی انتظام ہونا چاہیے کہ میرے پہنچتے ہی کسی بات چیت اور ادائے رسالت کی نوبت آنے سے پہلے وہ لوگ مجھے الزام قتل میں گرفتار نہ کرلیں ، کیونکہ اس صورت میں تو وہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا جس کے لیے مجھے اس مہم پر بھیجا جارہا ہے ۔ بعد کی عبارت سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت موسی کی اس گزارش کا یہ مدعا ہرگز نہیں تھا کہ وہ ڈر کے مارے نبوت کا منصب قبول کرنے اور فرعون کے ہاں جانے سے انکار کرنا چاہتے تھے ۔
یاد ماضی یہ گزر چکا کہ حضرت موسیٰ فرعون سے خوف کھاکر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہوجائیں ۔ حضرت موسیٰ نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں ۔ یہاں بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہوجائے ۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے ۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں ۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا ۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36؁ ) 20-طه:36 ) موسیٰ تیرا سوال پورا کردیا گیا ۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔ اسی لئے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کرکے انہیں نبی بنوادیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی ۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو ۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے ۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہوگا ۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔