Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
فَلَمَّا جَآءَهُمۡ مُّوۡسٰى بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّفۡتَـرًى وَمَا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآٮِٕنَا الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿36﴾
پس جب ان کے پاس موسیٰ ( علیہ السلام ) ہمارے دیئے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے تووہ کہنے لگے یہ تو صرف گھڑا گھڑایا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں کبھی یہ نہیں سنا ۔
فلما جاءهم موسى بايتنا بينت قالوا ما هذا الا سحر مفترى و ما سمعنا بهذا في اباىنا الاولين
But when Moses came to them with Our signs as clear evidences, they said, "This is not except invented magic, and we have not heard of this [religion] among our forefathers."
Pus jab unn kay pass musa ( alh-e-salam ) humaray diyey huyey khullay moajzzay ley ker phonchay to woh kehnay lagay yeh to sirf ghara gharaya jadoo hai hum ney apnay aglay baap dadon kay zamaney mein kabhi yeh nahi suna.
چنانچہ جب موسیٰ ان کے پاس ہماری کھلی ہوئی نشانیاں لے کر پہنچے تو انہوں نے کہا : یہ کچھ نہیں ، بس بناوٹی جادو ہے ، اور ہم نے یہ بات اپنے پچھلے باپ دادوں میں نہیں سنی ۔
پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں لایا بولے یہ تو نہیں مگر بناوٹ کا جادو ( ف۹٤ ) اور ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں میں ایسا نہ سنا ( ف۹۵ )
پھر جب موسی ( علیہ السلام ) ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی کھلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادو ۔ 49 اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سنی ہی نہیں ۔ 50
پھر جب موسٰی ( علیہ السلام ) ان کے پاس ہماری واضح اور روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو مَن گھڑت جادو کے سوا ( کچھ ) نہیں ہے ۔ اور ہم نے یہ باتیں اپنے پہلے آباء و اجداد میں ( کبھی ) نہیں سنی تھیں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 49 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًى افترا کیا ہوا جادو ۔ اس افترا کو جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدھا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنا ، نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کرتب سے ایک ایسی چیز بنا لایا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے ، اور اپنے ہاتھ پر بھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے ، یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیار کیا ہے اور ہمیں یقین یہ دلا رہا ہے کہ یہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسی نے پیش کی تھیں ، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان باتوں کی تفصیل دی گئی ہے ۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسی نے اس سے کہا: فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى ، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ۔ کیا تو پاکیزہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہے؟ اور میں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں تو خشیت اختیار کرے گا ۔ سورہ طہ میں ہے کہ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى ، اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں ، اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے اور اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ ۔ ہم تیرے رب کے پیغمبر ہیں ، تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے ۔ انہی باتوں کے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ فرعون مصر سے اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جو اس کو حکم دینے کی مجاز ہو ، جو اسے سزا دے سکتی ہو ، جو اسے ہدایات دینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے دربار میں بھیجے ، اور جس سے ڈرنے کے لیے مصر کے بادشاہ سے کہا جائے ۔ یہ تو نرالی باتیں ہیں جو آج ہم ایک شخص کی زبان سے سن رہے ہیں ۔
فرعونی قوم کا رویہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خلعت نبوت سے اور کلام الٰہی سے ممتاز ہو کر بحکم اللہ مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو معجزے اللہ نے دئیے تھے انہیں دکھایا ۔ سب کو مع فرعون کے یقین کامل ہوگیا کہ بیشک حضرت موسیٰ اللہ کے رسول ہیں ۔ لیکن مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل کے خلاف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے ۔ اب فرعونی اپنے دبدے اور قوت وطاقت سے حق کے مقابلے پر جم گئے اور اللہ کے نبیوں کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے لگے کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے ۔ ہم سب کے سب مع اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے ۔ یہ نئی باتیں لے کر کہاں سے آگیا ؟ کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے اور تم کو اللہ خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے؟ اور کون نیک انجام پر ہے؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ فیصلہ کردے گا اور تم عنقریب دیکھ لوگے کہ اللہ کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے؟ ظالم یعنی مشرک کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں ۔