Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يٰۤـاَيُّهَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرِىۡ‌ ۚ فَاَوۡقِدۡ لِىۡ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيۡنِ فَاجۡعَلْ لِّىۡ صَرۡحًا لَّعَلِّىۡۤ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوۡسٰى ۙ وَاِنِّىۡ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الۡـكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿38﴾
فرعون کہنے لگا اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا ۔ سن اے ہامان! تو میرے لئے مٹی کو آگ سے پکوا پھر میرے لئے ایک محل تعمیر کر تو میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اسے میں جھوٹوں میں سے ہی گمان کر رہا ہوں ۔
و قال فرعون يايها الملا ما علمت لكم من اله غيري فاوقد لي يهامن على الطين فاجعل لي صرحا لعلي اطلع الى اله موسى و اني لاظنه من الكذبين
And Pharaoh said, "O eminent ones, I have not known you to have a god other than me. Then ignite for me, O Haman, [a fire] upon the clay and make for me a tower that I may look at the God of Moses. And indeed, I do think he is among the liars."
Firaon kehney laga aey darbariyo! Mein to apnay siwa kissi ko tumhara mabood nahi janta. Sunn aey haamaan! Tu meray liye mitti ko aag say pakwa phir meray liye aik mehal tameer ker to mein musa kay mabood ko jhank loon ussay mein to jhooton mein say hi gumaan ker raha hun.
اور فرعون بولا : اے دربار والو ! میں تو اپنے سوا تمہارے کسی اور خدا سے واقف نہیں ہوں ۔ ہامان ! تم ایسا کرو کہ میرے لیے گارے کو آگ دے کر پکواؤ ، اور میرے لیے ایک اونچی عمارت بناؤ ، تاکہ میں اس پر سے موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں ، ( ٢٤ ) اور میں تو پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھا ہوں کہ یہ شخص جھوٹا ہے ۔
اور فرعون بولا ، اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان! میرے لیے گارا پکا کر ( ف۹۹ ) ایک محل بنا ( ف۱۰۰ ) کہ شاید میں موسیٰ کے خدا کو جھانک آؤں ( ف۱۰۱ ) اور بیشک میرے گمان میں تو وہ ( ف۱۰۲ ) جھوٹا ہے ( ف۱۰۳ )
اور فرعون نے کہا ” اے اہل دربار ، میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا ۔ 52 ہامان ، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا ، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسی ( علیہ السلام ) کے خدا کو دیکھ سکوں ، میں تو اسے جھوٹاسمجھتا ہوں ۔ ” 53
اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا ۔ اے ہامان! میرے لئے گارے کو آگ لگا ( کر کچھ اینٹیں پکا ) دے ، پھر میرے لئے ( ان سے ) ایک اونچی عمارت تیار کر ، شاید میں ( اس پر چڑھ کر ) موسٰی کے خدا تک رسائی پا سکوں ، اور میں تو اس کو جھوٹ بولنے والوں میں گمان کرتا ہوں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 52 اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا کہ اور نہیں ہوسکتا تھا کہ میں ہی تمہارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں ، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی ، اور اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، کیونکہ اہل مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبودیت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا ، سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجود ہے کہ فرعون خود بہ سے دیوتاؤں کا پرستار تھا: وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۔ اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسی اور اس کی قوم کو چھوٹ دے دے گا کہ ملک میں فساد برپا کریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔ ( الاعراف ، آیت 127 ) اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نے لفظ خدا اپنے لیے بمعنی خالق و معبود نہیں بلکہ بمعنی مطیع و حاکم مطلق استعمال کیا تھا ۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ اس سرزمین مصر کا مالک میں ہوں ۔ یہاں میرا حکم چلے گا ، میرا ہی قانون یہاں قانون مانا جائے گا ۔ میری ذات ہی یہاں امر و نہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی ، کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے ، یہ موسی کون ہے جو رب العالمین کا نمائندہ بن کر ا کھڑا ہوا ہے اور مجھے اس طرح احکام سنا رہا ہے کہ گویا اصل فرمنروا یہ ہے اور میں اس کا تابع ہوں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنے دربار کے لگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ ۔ اے قوم ، کیا مصر کی بادشاہی میری ہی نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے تحت جاری نہیں ہیں ( الزخرف ، آیت 51 ) اور اسی بنا پر وہ حضرت موسی سے بار بار کہتا تھا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے ہٹا دے جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور اس ملک میں بڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہوجائے ( یونس ، آیت 78 ) اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى ۔ اے موسی کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہماری زمین سے بے دخل کردے ( طہ ، آیت 57 ) اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص تم لوگوں کا دین بدل ڈالے گا ، یا ملک میں فساد برپا کرے گا ۔ ( المومن ، آیت 26 ) اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن ان ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد و خود مختار ہوکر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں ۔ وہ خواہ سرچشمہ قانون اور صاحب امر و نہی کسی بادشاہ کو مانیں یا قوم کی مرضی کو ، بہرحال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول کا بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اور فرعون کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے رہیں اور ان کو سند جواز عطا کرتے رہیں ، حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو ۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے الہ کا لفظ استعمال کیا تھا ، اور یہ اسی معنی میں حاکمیت کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، سورہ طہ ، حاشیہ 21 ) سورة القصص حاشیہ نمبر : 53 یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے ر وسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ، یہ اسپٹنک اور لونک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری ان گیندوں کو اوپر کہیں خدا نہیں ملا ۔ وہ بے وقوف ایک مینارے پر چڑھ کر خدا کو جھانکنا چاہتا تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کے ذہن کی پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاں تک تھی آج بھی وہیں تک ہے ۔ اس اعتبار سے ایک انگل بھر ترقی بھی وہ نہیں کرسکے ہیں ۔ معلوم نہیں کسی احمق نے ان کو یہ خبر دی تھی کہ خدا پرست لوگ لوگ جس رب العالمین کو مانتے ہیں وہ ان کے عقیدے کی رو سے اوپر کہیں بیٹھا ہوا ہے ، اور اس اتھاہ کائنات میں زمین سے چند ہزار فیٹ یا چند لاکھ میل اوپر اٹھ کر اگر وہ انہیں نہ ملے تو یہ بات گویا بالکل ثابت ہوجائے گی کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے ۔ قرآن یہاں یہ نہیں کہتا کہ فرعون نے فی الواقع ایک عمارت اس غرض کے لیے بنوائی تھی اور اس پر چڑھ کر خدا کو جھانکنے کی کوشش بھی کی تھی ، بلکہ وہ اس کے صرف اس قول کو نقل کرتا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملا یہ حماقت نہیں کی تھی ، ان باتوں سے اس کا مدعا صرف بے وقوف بنانا تھا ۔ یہ امر بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ فرعون آیا فی الواقع خداوند عالم کی ہستی کا منکر تھا یا محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دہریت کی باتیں کرتا تھا ۔ اس کے اقوال اس معاملہ میں اسی ذہنی الجھاؤ کی نشان دہی کرتے ہیں جو روسی کمیونسٹوں کی باتوں میں پایا جاتا ہے ۔ کبھی تو وہ آسمان پر چڑھ کر دنیا کو باتانا چاہتا تھا کہ میں اوپر دیکھ آیا ہوں ، موسی کا خدا کہیں نہیں ہے ، اور کبھی وہ کہتا فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ ۔ اگر موسی واقعی خدا کا بھیجا ہوا ہے تو کیوں نہ اس کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے ، یا اس کی اردلی میں ملائکہ نہ آئے ۔ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خروشچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی خدا کا انکار کرتا اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا اور اس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا ۔ ہمارا قیاس ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے خلفاء کا دور اقتدار گزر جانے کے بعد جب مصر میں قبطی قوم پرستی کا زور ہوا اور ملک میں اسی نسلی و وطنی تعصب کی بنیاد پر سیاسی انقلاب رونما ہوگیا تو نئے لیڈروں نے اپنے قوم پرستانہ جوش میں اس خدا کے خلاف بھی بغاوت کردی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسف اور ان کے پیرو اسرائیلی اور مصری مسلمان دیتے تھے ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ خدا کو مان کر ہم یوسفی تہذیب کے اثر سے نکل سکیں گے ، اور یہ تہذیب باقی رہی تو ہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہوسکے گا ۔ وہ کدا کے اقرار و مسلم اقتدار کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ، اس لیے ایک سے پیچھا چھڑانے کی خاطر دوسرے کا انکار ان کے نزدیک ضروری تھا ، اگرچہ اس کا اقرار ان کے دل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتا تھا ۔
فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو بےعقل بناکر ان سے اپنا دعویٰ منوالیا اس نے ان کمینوں کو جمع کرکے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑلیا اور دوسروں کے لئے اسے نشان عبرت بنایا ۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ حضرت موسیٰ سے ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تونے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا ۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعوی انہیں منواکر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ ( بھٹہ ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لئے ایک بلند وبالا مینار بنا کہ میں جاکر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں ۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے ۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت ( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ 36؀ۙ ) 40-غافر:36 ) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند میناربنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا ومارب العلمین رب العالمین ہے کیا ؟ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں ۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی ۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہوگئے ۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹادیا ۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا ۔ لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنادیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں ۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے ۔ قیامت کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے جسیے فرمان ہے ( اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀ ) 47-محمد:13 ) ہم نے انہیں تہہ وبالا کردیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا ۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ 99؀ ) 11-ھود:99 ) یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت ۔