Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَمَا كُنۡتَ بِجَانِبِ الۡغَرۡبِىِّ اِذۡ قَضَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسَى الۡاَمۡرَ وَمَا كُنۡتَ مِنَ الشّٰهِدِيۡنَۙ‏ ﴿44﴾
اور طور کے مغربی کی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی ، نہ تو تو موجود تھا اور نہ تو دیکھنے والوں میں سے تھا ۔
و ما كنت بجانب الغربي اذ قضينا الى موسى الامر و ما كنت من الشهدين
And you, [O Muhammad], were not on the western side [of the mount] when We revealed to Moses the command, and you were not among the witnesses [to that].
Aur toot kay maghribi janib jab kay hum ney musa ( alh-e-salam ) ko hukum ehkaam ki wahee phonchaee thi na to tu mojood tha aur na tu dekhney walon mein say tha.
اور ( اے پیغمبر ) تم اس وقت ( کوہ طور کی ) مغربی جانب موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو احکام سپرد کیے تھے ( ٢٦ ) اور نہ تم ان لوگوں میں سے تھے جو اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں ۔
اور تم ( ف۱۱۱ ) طور کی جانت مغرب میں نہ تھے ( ف۱۱۲ ) جبکہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا ( ف۱۱۳ ) اور اس وقت تم حاضر نہ تھے ،
﴿اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﴾ تم اس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے 60 جب ہم نے موسی ( علیہ السلام ) یہ فرمان شریعت عطا کیا ، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے ، 61
اور آپ ( اس وقت طُور کے ) مغربی جانب ( تو موجود ) نہیں تھے جب ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کی طرف حکمِ ( رسالت ) بھیجا تھا ، اور نہ ( ہی ) آپ ( ان ستّر افراد میں شامل تھے جو وحیِ موسٰی علیہ السلام کی ) گواہی دینے والوں میں سے تھے ( پس یہ سارا بیان غیب کی خبر نہیں تو اور کیا ہے؟ )
سورة القصص حاشیہ نمبر : 60 مغربی گوشے سے مراد جزیرہ نمائے سینا کا وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسی کو احکام شریعت دیے گئے تھے ، یہ علاقہ حجاز کے مغربی جانب واقع ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 61 یعنی بنی اسرائیل کے ان ستر نمائندوں میں جن کو شریعت کی پابندی کا عہد لینے کے لیے حضرت موسی کے ساتھ بلایا گیا تھا ( سورہ اعراف ، آیت 155 میں ان نمائندوں کے بلائے جانے کا ذکر گزر چکا ہے ، اور بائیبل کی کتاب خروج ، باب 24 میں بھی اس کا ذکر موجود ہے )
دلیل نبوت اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جو امی ہو جس نے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو جو اگلی کتابوں سے محض ناآشنا ہو جس کی قوم علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بےخبر ہو وہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کام فصاحت وبلاغت کے ساتھ بالکل سچے ٹھیک اور صحیح گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہو اور جیسے کہ وہ ان کے ہونیکے وقت وہیں موجود ہو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے تلقین کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود اپنی وحی کے ذریعہ سے انہیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے ۔ حضرت مریم صدیقہ کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے بھی قرآن نے اس چیز کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے آیت ( ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ 44؀ ) 3-آل عمران:44 ) جب کہ وہ حضرت مریم کے پالنے کے لیے قلمیں ڈال کر فیصلے کررہے تھے اس وقت تو ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ تو اس وقت تھا جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے پس باوجود عدم موجودگی اور بےخبری کے آپ کی نبوت کی کھری دلیل ہے اور صاف نشانی ہے اس امر پر کہ وحی الٰہی سے یہ کہہ رہے ہیں ۔ اسی طرح نوح نبی کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ہے آیت ( تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا ړ فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ 49؀ۧ ) 11-ھود:49 ) یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تم تک پہنچا رہے ہیں تو اور تیری ساری قوم اس وحی سے پہلے ان واقعات سے محض بےخبر تھی ۔ اب صبر کے ساتھ دیکھتا رہ اور یقین مان کہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے ہی نیک انجام ہوتے ہیں ۔ سورۃ یوسف کے آخر میں بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تیرے پاس بھیج رہے ہیں تو ان کے پاس اس وقت موجود نہ تھا جب کہ برادران یوسف نے اپنا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور اپنی تدبیروں میں لگ گئے تھے ۔ سورۃ طہ میں عام طور پر فرمایا آیت ( كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا 99۝ڻ ) 20-طه:99 ) اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی خبریں بیان فرماتے ہیں ۔ پس یہاں بھی موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ان کی نبوت کی ابتداء وغیرہ اول سے آخر تک بیان فرما کر فرمایا کہ تم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مغربی پہاڑ کی جانب جہاں کے مشرقی درخت میں سے جو وادی کے کنارے تھے اللہ نے اپنے کلیم سے باتیں کیں موجود نہ تھے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی وحی کے ذریعے آپ کو یہ سب معلومات کرائیں ۔ تاکہ یہ آپ کی نبوت کی ایک دلیل ہوجائے ان زمانوں پر جو مدتوں سے چلے آرہے ہیں اور اللہ کی باتوں کو وہ بھول بھال چکے ہیں ۔ اگلے نبیوں کی وحی ان کے ہاتھوں سے گم ہوچکی ہے اور نہ تو مدین میں رہتا تھا کہ وہاں کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی حالت بیان کرتا جو ان میں اور ان کے قوم میں واقع ہوئے تھے ۔ بلکہ ہم نے بذریعہ وحی یہ خبریں تمہیں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ۔ اور نہ تو طور کے پاس تھا جب کہ ہم نے آواز دی ۔ نسائی شریف میں حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ آواز دی گئی کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس سے پہلے مجھ سے مانگو میں نے تمہیں دے دیا اور اس سے پہلے تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کرچکا ۔ مقاتل کہتے ہیں کہ ہم نے تیری امت کو جو ابھی باپ دادوں کی پیٹھ میں تھی آواز دی کہ جب تو نبی بناکر بھیجا جائے تو وہ تیری اتباع کریں ۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی یہی زیادہ مشابہ اور مطابق ہے کیونکہ اوپر بھی یہی ذکر ہے ۔ اوپر عام طور بیان تھا یہاں خاص طور سے ذکر کیا جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ 10۝ۙ ) 26- الشعراء:10 ) کو آواز دی اور آیت میں ہے کہ وادی مقدس میں اللہ نے اپنے کلیم کو پکارا ۔ اور آیت میں ہے کہ طور ایمن کی طرف سے ہم نے اسے پکارا اور سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے اپنا قرب عطا فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک واقعہ بھی نہ تیری حاضری کا ہے نہ تیرا چشم دید ہے بلکہ یہ اللہ کی وحی ہے جو وہ اپنی رحمت سے تجھ پر فرما رہے ہیں اور یہ بھی اس کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے بندوں کی طرف نبی بناکر بھیجا ۔ کہ تو ان لوگوں کو آگاہ اور ہوشیار کردے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں ۔ اور اس لیے بھی کہ ان کی دلیل باقی نہ رہ جائے اور کوئی عذر ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو آتا دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ تھا جو انہیں راہ راست کی تعلیم دیتا اور جیسے کہ اپنی مبارک کتاب قرآن کریم کے نزول کو بیان فرما کر فرمایا کہ یہ اس لئے ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کی دونوں جماعت پر اترتی تھی لیکن ہم تو اس کی درس وتدریس سے بالکل غافل تھے اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو یقینا ہم ان سے زیادہ راہ راست پر آجاتے ۔ اب بتاؤ کہ خود تمہارے پاس بھی تمہارے رب کی دلیل اور ہدایت ورحمت آچکی ۔ اور آیت میں ہے رسول ہیں خوشخبریاں دینے والے ڈرانے والے تاکہ ان رسولوں کے بعد کسی کی کوئی حجت اللہ پر باقی نہ رہ جائے ۔ اور آیت میں فرمایا ( يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ 19۝ۧ ) 5- المآئدہ:19 ) اے اہل کتاب اس زمانہ میں جو رسولوں کی عدم موجودگی کا چلا آرہا تھا ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس کوئی بشیر ونذیر نہیں پہنچا لو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آپہنچا ۔ اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت ہیں غرض رسول آچکے اور تمہارا یہ عذر کٹ گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہوجاتے ۔