Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّاَنۡۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ‌ؕ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيۡهَا زَكَرِيَّا الۡمِحۡرَابَۙ وَجَدَ عِنۡدَهَا رِزۡقًا ‌ۚ‌ قَالَ يٰمَرۡيَمُ اَنّٰى لَـكِ هٰذَا ؕ‌ قَالَتۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿37﴾
پس اسے اس کے پرورگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی ۔ اس کی خیر خبر لینے والا زکریا ( علیہ السلام ) کو بنایا جب کبھی زکریا ( علیہ السلام ) ان کے حجرے میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے وہ پوچھتے اے مریم !یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی ؟وہ جواب دیتیں یہ اللہ تعالٰی کے پاس سے ہے ، بیشک اللہ تعالٰی جسے چاہے بے شمار روزی دے ۔
فتقبلها ربها بقبول حسن و انبتها نباتا حسنا و كفلها زكريا كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقا قال يمريم انى لك هذا قالت هو من عند الله ان الله يرزق من يشاء بغير حساب
So her Lord accepted her with good acceptance and caused her to grow in a good manner and put her in the care of Zechariah. Every time Zechariah entered upon her in the prayer chamber, he found with her provision. He said, "O Mary, from where is this [coming] to you?" She said, "It is from Allah . Indeed, Allah provides for whom He wills without account."
Pus issay uss kay perwerdigar ney achi tarah qabool farmaya aur ussay behtareen perwerish di. Uss ki khair khabar lenay wala zakariya ( alh-e-salam ) ko banaya jab kabhi zakariya ( alh-e-salam ) unn kay hujray mein jatay unn kay pass rozi rakhi hui patay woh poochtay aey marium! Yeh rozi tumharay pass kahan say aaee? Woh jawab detin kay yeh Allah Taalaa kay pass say hai be-shak Allah Taalaa jissay chahaye bey shumar rozi dey.
چنانچہ اس کے رب نے اس ( مریم ) کو بطریق احسن قبول کیا اور اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا ۔ اور زکریا اس کے سرپرست بنے ۔ ( ١١ ) جب بھی زکریا ان کے پاس ان کی عبادت گاہ میں جاتے ، ان کے پاس کوئی رزق پاتے ، انہوں نے پوچھا : مریم ! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ وہ بولیں : اللہ کے پاس سے ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے
تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا ( ف۷۳ ) اور اسے اچھا پروان چڑھایا ( ف۷٤ ) اور اسے زکریا کی نگہبانی میں دیا ، جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے ( ف۷۵ ) کہا اے مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ، بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے ، بیشک اللہ جسے چاہے بےگنتی دے ( ف۷٦ )
آخر کار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا ۔ اسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اٹھایا ۔ اور زکریّا کو اس کا سرپرست بنا دیا ۔ زکریا 35 جب کبھی اس کے پاس محراب 36 میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا ۔ پوچھتا مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے ۔
سو اس کے رب نے اس ( مریم ) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا اور اس کی نگہبانی زکریا ( علیہ السلام ) کے سپرد کر دی ، جب بھی زکریا ( علیہ السلام ) اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس ( نئی سے نئی ) کھانے کی چیزیں موجود پاتے ، انہوں نے پوچھا: اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لئے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا: یہ ( رزق ) اﷲ کے پاس سے آتا ہے ، بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :35 اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سن رشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عبادت گاہ ( ہیکل ) میں داخل کر دی گئیں اور ذکر الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں ۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں ، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے ۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پرانے عہد نامے میں آیا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :36 لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے ۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے ۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطح زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں ، جن میں عبادت گاہ کے مجاور ، خدام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے ۔ اسی قسم کے کمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں ۔
زکریا علیہ السلام کا تعارف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حضرت حفصہ کی نذر کو اللہ تعالیٰ نے بخوشی قبول فرما لیا اور اسے بہترین طور سے نشوونما بخشی ، ظاہری خوبی بھی عطا فرمائی اور باطنی خوبی سے بھرپور کر دیا اور اپنے نیک بندوں میں ان کی پرورش کرائی تاکہ علم اور خیر اور دین سیکھ لیں ، حضرت زکریا کو ان کا کفیل بنا دیا ابن اسحاق تو فرماتے ہیں یہ اس لئے کہ حضرت مریم علیہما السلام یتیم ہو گئی تھیں ، لیکن دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ حضرت زکریا نے اپنے ذمہ لے لیا تھا ، ہو سکتا ہے کہ دونوں وجوہات اتفاقاً آپس میں مل گئی ہوں واللہ اعلم ، حضرت ابن اسحاق وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام ان کے خالو تھے ، اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کے بہنوئی تھے ، جیسے معراج والی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی جو دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ، ابن اسحاق کے قول پر یہ حدیث ٹھیک ہے کیونکہ اصلاح عرب میں ماں کی خالہ کے لڑکے کو بھی خالہ زاد بھائی کہہ دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ حضرت مریم اپنی خالہ کی پرورش میں تھیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یتیم صاحبزادی عمرہ کو ان کی خالہ حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالہ قائم مقام ماں کے ہے ، اب اللہ تعالیٰ حضرت مریم کی بزرگی اور ان کی کرامت بیان فرماتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام جب کبھی ان کے پاس ان کے حجرے میں جاتے تو بےموسمی میوے ان کے پاس پاتے مثلاً جاڑوں میں گرمیوں کے میوے اور گرمیوں میں جاڑے کے میوے ۔ حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو الشعشاء ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت ضحاک ، حضرت قتادہ ، حضرت ربیع بن انس ، حضرت عطیہ عوفی ، حضرت سدی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں ، حضرت مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ یہاں رزق سے مراد علم اور وہ صحیفے ہیں جن میں علمی باتیں ہوتی تھیں لیکن اول قول ہی زیادہ صحیح ہے ، اس آیت میں اولیاء اللہ کی کرامات کی دلیل ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سی حدیثیں بھی آتی ہیں ۔ حضرت زکریا علیہ السلام ایک دن پوچھ بیٹھے کہ مریم تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ صدیقہ نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے ، وہ جسے چاہے بےحساب روزی دیتا ہے ، مسند حافظ ابو یعلیٰ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گذر گئے بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی اپنی سب بیویوں کے گھر ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ پایا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی تمہارے پاس کچھ ہے؟ کہ میں کھا لوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے ، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے باپ صدقے ہوں کچھ بھی نہیں ، اللہ کے نبی ( اللھم صلی وسلم علیہ ) وہاں سے نکلے ہی تھے کہ حضرت فاطمہ کی لونڈی نے دو روٹیاں اور ٹکڑا گوشت حضرت فاطمہ کے پاس بھیجا آپ نے اسے لے کر برتن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں گو مجھے ، میرے خاوند اور بچوں کو بھوک ہے لیکن ہم سب فاقے ہی سے گذار دیں گے اور اللہ کی قسم آج تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دوں گی ، پھر حضرت حسن یا حسین کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں ملے اور ساتھ ہو لئے ، آپ آئے تو کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ نے کچھ بھجوا دیا ہے جسے میں نے آپ کے لئے چھپا کر رکھ دیا ہے ، آپ نے فرمایا میری پیاری بچی لے آؤ ، اب جو طشت کھولا تو دیکھتی ہے کہ روٹی سالن سے ابل رہا ہے دیکھ کر حیران ہوگئیں لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ اللہ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہو گئی ہے ، اللہ کا شکر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر درود پڑھا اور آپ کے پاس لا کر پیش کر دیا آپ نے بھی اسے دیکھ کر اللہ کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ بیٹی یہ کہاں سے آیا ؟ جواب دیا کہ ابا جان اللہ کے پاس سے وہ جسے چاہے بےحساب روزی دے ، آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار جیسا کر دیا ، انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ اللہ کے پاس سے ہے اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور آپ نے حضرت علی نے اور حضرت فاطمہ نے اور حضرت حسین نے اور آپ کی سب ازواج مطہرات اور اہل بیت نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا یہ خیر کثیر اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔