Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ‌ ‌ۚ قَالَ رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً‌ ‌ ۚ اِنَّكَ سَمِيۡعُ الدُّعَآءِ‏ ﴿38﴾
اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی کہا کہ اے میرے پروردگار !مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بیشک تو دعا کا سُننے والا ہے ۔
هنالك دعا زكريا ربه قال رب هب لي من لدنك ذرية طيبة انك سميع الدعاء
At that, Zechariah called upon his Lord, saying, "My Lord, grant me from Yourself a good offspring. Indeed, You are the Hearer of supplication."
Ussi jagah zakariya ( alh-e-salam ) ney apney rab say dua ki kaha kay aey meray perwerdigar! Mujhay apney pass say pakeeza aulad ata farma be-shak tu dua ka sunney wala hai.
اس موقع پر زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ، کہنے لگے : یا رب مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرمادے ۔ بیشک تو دعا کا سننے والا ہے ۔ ( ١٢ )
یہاں ( ف۷۷ ) پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب! میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد ، بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا ،
یہ حال دیکھ کر زکریا نے اپنے رب کو پکارا ’’ پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر‘‘ ۔ تو ہی دعا سننے والا ہے ۔ 37
اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی ، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما ، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :37 حضرت زکریا اس وقت تک بے اولاد تھے ۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی کو دیکھ کر فطرةً ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے ، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے ، انہیں یہ امید ہوئی کہ اللہ چاہے ، تو اس بڑھاپے میں بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے ۔
حاصل دعا یحییٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہما السلام کو بےموسم میوہ دیتا ہے جاڑوں میں گرمیوں کے پھل اور گرمی میں جاڑوں کے میوے ان کے پاس رکھے رہتے ہیں تو باوجود اپنے پورے بڑھاپے کے اور باوجود اپنی بیوی کے بانجھ ہونے کے علم کے آپ بھی بےموسم میوہ یعنی نیک اولاد طلب کرنے لگے ، اور چونکہ یہ طلب بظاہر ایک ناممکن چیز کی طلب تھی اس لئے نہایت پوشیدگی سے یہ دعا مانگی جیسے اور جگہ ہے نداء خفیا یہ اپنے عبادت خانے میں ہی تھے جو فرشتوں نے انہیں آواز دی اور انہیں سنا کر کہا کہ آپ کے ہاں ایک لڑکا ہو گا جس کا نام یحییٰ رکھنا ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ یہ بشارت ہماری طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ یحییٰ نام کی وجہ سے یہ ہے کہ ان کی حیاۃ ایمان کے ساتھ ہو گی ، وہ اللہ کے کلمہ کے یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم کی تصدیق کریں گے ، حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت عیسیٰ کی نبوت کو تسلیم کرنے والے بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام ہیں ، جو حضرت عیسیٰ کی روش اور آپ کے طریق پر تھے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے ۔ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت مریم سے اکثر ذکر کیا کرتی تھیں کہ میں اپنے پیٹ کی چیز کو تیرے پیٹ کی چیز کو سجدہ کرتی ہوئی پاتی ہوں ، یہ تھی حضرت یحییٰ کی تصدیق دنیا میں آنے سے پیشتر سب سے پہلے حضرت عیسیٰ کی سچائی کو انہوں نے ہی پہچانا یہ حضرت عیسیٰ سے عمر میں بڑے تھے ، سید کے معنی حلیم ، بردبار ، علم و عبادت میں بڑھا ہوا ، متقی ، پرہیزگار ، فقیہ ، عالم ، خلق و دین میں سب سے افضل جسے غصہ اور غضب مغلوب نہ کر سکے ، شریف اور کریم کے ہیں ، حضور کے معنی ہیں جو عورتوں کے پاس نہ آسکے جس کے ہاں نہ اولاد ہو نہ جس میں شہوت کا پانی ہو ، اس معنی کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن ابی حاتم میں ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ تلاوت کر کے زمین سے کچھ اٹھا کر فرمایا اس کا عضو اس جیسا تھا ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ساری مخلوق میں صرف حضرت یحییٰ ہی اللہ سے بےگناہ ملیں گے پھر آپ نے یہ الفاظ پڑھے اور زمین سے کچھ اٹھایا اور فرمایا حضور اسے کہتے ہیں جس کا عضو اس جیسا ہو ، اور حضرت یحییٰ بن سعید قطان نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کیا ، یہ روایت جو مرفوع بیان ہوئی ہے اس کی حوالے سے اس موقوف کی سند زیادہ صحیح ہے ، اور مرفوع روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کے پھندے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ایسا تھا ، اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے زمین سے ایک مرجھایا ہوا تنکا اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کر کے یہی فرمایا ، اس کے بعد حضرت زکریا کو دوسری بشارت دی جاتی ہے کہ تمہارا لڑکا نبی ہو گا یہ بشارت پہلی خوشخبری سے بھی بڑھ گئی ، جب بشارت آچکی تب حضرت زکریا کو خیال پیدا ہوا کہ بظاہر اسباب سے تو اس کا ہونا محال ہے تو کہنے لگے اللہ میری ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں بوڑھا ہوں میری بیوی بالکل بانجھ ، فرشتے نے اسی وقت جواب دیا کہ اللہ کا امر سب سے بڑا ہے اس کے پاس کوئی چیز ان ہونی نہیں ، نہ اسے کوئی کام کرنا مشکل نہ وہ کسی کام سے عاجز ، اس کا ارادہ ہو چکا وہ اسی طرح کرے گا ، اب حضرت زکریا اللہ سے اس کی علامت طلب کرنے لگے تو ذات باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ نشان یہ ہے کہ تو تین دن تک لوگوں سے بات نہ کر سکے گا ، رہے گا تندرست صحیح سالم لیکن زبان سے لوگوں سے بات چیت نہ کی جائے گی صرف اشاروں سے کام لینا پڑے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) 19 ۔ مریم:10 ) یعنی تین راتیں تندرستی کی حالت پھر حکم دیا کہ اس حال میں تمہیں چاہئے کہ ذکر اور تکبیر اور تسبیح میں زیادہ مشغول رہو ، صبح شام اسی میں لگے رہو ، اس کا دوسرا حصہ اور پورا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ مریم کے شروع میں آئے گا ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔