Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰهُ وَعۡدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيۡهِ كَمَنۡ مَّتَّعۡنٰهُ مَتَاعَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ثُمَّ هُوَ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ مِنَ الۡمُحۡضَرِيۡنَ‏ ﴿61﴾
کیا وہ شخص جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا ہے جسےوہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہو سکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانی ٔ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا ۔
افمن وعدنه وعدا حسنا فهو لاقيه كمن متعنه متاع الحيوة الدنيا ثم هو يوم القيمة من المحضرين
Then is he whom We have promised a good promise which he will obtain like he for whom We provided enjoyment of worldly life [but] then he is, on the Day of Resurrection, among those presented [for punishment in Hell]?
Kiya woh shaks jiss say hum ney nek wada kiya hai jissay woh qata’an paney wala hai misil uss shaks kay ho sakta hai? Jissay hum ney zindaganiy-e-duniya ki kuch yun hi si manfa’at dey di phir bil-aakhir woh qayamat kay roz pakra baandha hazir kiya jayega.
بھلا بتاؤ کہ جس شخص سے ہم نے اچھا سا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ اس وعدے کو پاکر رہے گا ، کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کی پونجی کے کچھ مزے دے دیے ہیں ، پھر وہ ان لوگوں میں شامل ہونے والا ہے جو قیامت کے دن دھر لیے جائیں گے؟
تو کیا وہ جسے ہم نے اچھا وعدہ دیا ( ف۱۵۷ ) تو وہ اس سے ملے گا اس جیسا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا برتاؤ برتنے دیا پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر لایا جائے گا ( ف۱۵۸ )
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟ 84
کیا وہ شخص جس سے ہم نے کوئی ( آخرت کا ) اچھا وعدہ فرمایا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو جائے ، اس ( بدنصیب ) کی مثل ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کے سامان سے نوازا ہو پھر وہ ( کفرانِ نعمت کے باعث ) روزِ قیامت ( عذاب کے لئے ) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو جائے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 84 یہ ان کے عذر کا چوتھا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہیں ۔ اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی ، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے ، اصل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، آگے آنی ہے ، موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سروسامان جمع کرلے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کرلے ، بہرحال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کا سب سروسامان آدمی کو یونہی چھوڑ کر اٹھ جانا ہے ۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائما خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے ، تو کوئی صاحب عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کرسکتا ، اس کے مقابلے میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے ، مگر یہاں سے وہ بھلائٰیاں کما کر لے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے ہمیشگی کے عیش کی موجب بنیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی مار دے ۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے ، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی ، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر ، اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخسرو کرے ، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے ، لیکن جہاں معابلہ مقابلے کا آپڑے ، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے کی ضد ہوجائیں ، وہاں دین حق کا مطالبہ انسان سے یہ ہے ، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ بھی ہے کہ آدمی دنیا کو آخر پر قربان کردے اور اس دنیا کی عارضی متاع و زینت کی خاطر وہ راہ ہرگز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو ۔ ان دو باتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالی اوپر کے فقروں میں کفار مکہ سے کیا فرماتا ہے ۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو ، اپنے کاروبار ختم کردو ، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہوجاؤ ، بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو ، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیات دنیا میں اٹھا سکتے ہو ، اس کے برعکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف ( Quality اور Quantity ) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے ۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو گے اگر اس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے ، تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے انعام سے سرفراز ہو ، یا وہ شخص جو گرفتار ہوکر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے؟