Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
اِنَّ قَارُوۡنَ كَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰى فَبَغٰى عَلَيۡهِمۡ‌ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنَ الۡكُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَةِ اُولِى الۡقُوَّةِ اِذۡ قَالَ لَهٗ قَوۡمُهٗ لَا تَفۡرَحۡ‌ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡفَرِحِيۡنَ‏ ﴿76﴾
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے ، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا ہم نے اسے ( اس قدر ) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اتر امت !اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔
ان قارون كان من قوم موسى فبغى عليهم و اتينه من الكنوز ما ان مفاتحه لتنوا بالعصبة اولي القوة اذ قال له قومه لا تفرح ان الله لا يحب الفرحين
Indeed, Qarun was from the people of Moses, but he tyrannized them. And We gave him of treasures whose keys would burden a band of strong men; thereupon his people said to him, "Do not exult. Indeed, Allah does not like the exultant.
Qaroon tha to qom-e-musa say lekin unn per zulm kerney laga tha hum ney ussay ( iss qadar ) khazaney dey rakhay thay kay kaee kaee taqatwar log ba mushkil uss ki kunjiyan utha saktay thay aik baar uss ki qom ney uss say kaha kay itra mat! Allah Taalaa itraney walon say mohabbat nahi rakhta.
قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا ، ( ٤١ ) پھر اس نے انہی پر زیادتی کی ( ٤٢ ) ۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی چابیاں طاقتور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اٹھتی تھیں ۔ ایک وقت تھا جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ : اتراؤ نہیں ، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا ( ف۱۹۱ ) پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیے جن کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں ، جب اس سے اس کی قوم ( ف۱۹۲ ) نے کہا اِترا نہیں ( ف۱۹۳ ) بیشک اللہ اِترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ،
یہ ایک واقعہ ہے94 کہ قارون موسی ( علیہ السلام ) کی قوم کا ایک شخص تھا ، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا ۔ 95 اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی ۔ 96 ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ” پھول نہ جا ، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بیشک قارون موسٰی ( علیہ السلام ) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں ( اٹھانا ) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا ، جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو ( خوشی کے مارے ) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 94 یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اسی عذر کے جواب میں بیان کیا جارہا ہے جس پر آیت نمبر 57 سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ دراصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ ، ساہبوکار اور سرمایہ دار تھے ، جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارون وقت بنا رکھا تھا ، یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھنے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹو ، اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جاسکتا ، دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں ، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے ، اس زر پرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جس توحید و آخرت کی اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آرہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑ جائیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 95 قارون ، جس کا نام بائیبل اور تلمود میں قورح ( Korah ) بیان کیا گیا ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا ، بائیبل کی کتاب خروج ( باب 6 ۔ آیت 18 ۔ 21 ) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسی اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے ، قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسی علیہ السلام کی دعوت کے مقابلے میں فرعون کے بعد مخالفت کے جود و سب سے بڑے سرغنے تھے ان میں سے ایک یہی قارون تھا: وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ( المومن ۔ آیت 23 ۔ 24 ) ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا ، مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہوکر اس دشمن طاقت کا پٹھو بن گیا تھا جو بنی اسرائیل کو جڑ بنیاد سے ختم کردینے پر تلی ہوئی تھی ۔ اور اس قوم کی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میں یہ مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت موسی فرعون کے علاوہ مصر کی جن دو بڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دو ہی تھیں ، ایک فرعون کا وزیر ہامان ، اور دوسرا یہ اسرائیلی سیٹھ ۔ باقی سب اعیان سلطنت اور درباری ان سے کم تر درجے میں تھے جن کا خاص طور پر نام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ قارون کی یہی پوزیشن سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 39 میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 96 بائیبل ( گنتی ، باب 16 ) اس کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں اس شخص کی دولت کا کوئی ذکر نہیں ہے ، مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کا مالک تھا حتی کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے کے لیے تین سو خچر درکار ہوتے تھے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ، ج 7 ۔ ص 556 ) یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے ، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی روایات کی رو سے بھی قارون اپنے وقت کا بہت بڑا دولت مند آدمی تھا ۔
قارون مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا کالڑکا تھا ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں ۔ یہ بہت خوش آواز تھا ، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے ۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا ۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو ۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی ۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی ۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے ، واللہ اعلم ۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو ، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے ۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے ۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش وعشرت کر ہی نہیں ۔ نہیں اچھا کھا ، پی ، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر ۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے ۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا ۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا ۔