Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِيۡتُهٗ عَلٰى عِلۡمٍ عِنۡدِىۡ‌ؕ اَوَلَمۡ يَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ قَدۡ اَهۡلَكَ مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مَنۡ هُوَ اَشَدُّ مِنۡهُ قُوَّةً وَّاَكۡثَرُ جَمۡعًا‌ؕ وَلَا يُسۡــَٔلُ عَنۡ ذُنُوۡبِهِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿78﴾
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی ۔
قال انما اوتيته على علم عندي او لم يعلم ان الله قد اهلك من قبله من القرون من هو اشد منه قوة و اكثر جمعا و لا يسل عن ذنوبهم المجرمون
He said, "I was only given it because of knowledge I have." Did he not know that Allah had destroyed before him of generations those who were greater than him in power and greater in accumulation [of wealth]? But the criminals, about their sins, will not be asked.
Qaroon ney kaha yeh sab kuch mujhay meri apni samajh ki bina per hi diya gaya hai kiya issay abb tak yeh nahi maloom kay Allah Taalaa ney uss say pehlay boht si basti walon ko ghaarat ker diya jo uss say boht ziyada qooat walay aur boht bari jama poonji walay thay. Aur gunehgaaron say unn kay gunahon ki baaz purs aisay waqt nahi ki jati
کہنے لگا : یہ سب کچھ تو مجھے خود اپنے علم کی وجہ سے ملا ہے ۔ بھلا کیا اسے اتنا بھی علم نہیں تھا کہ اللہ نے اس سے پہلی نسلوں کے ایسے ایسے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا تھا جو طاقت میں بھی اس سے زیادہ مضبوط تھے ( ٤٦ ) اور جن کی جمعیت بھی زیادہ تھی ۔ اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جاتا ۔ ( ٤٧ )
بو لا یہ ( ف۱۹۸ ) تو مجھے ایک علم سے ملا ہے جو میرے پاس ہے ( ف۱۹۹ ) اور کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ نے اس سے پہلے وہ سنگتیں ( قومیں ) ہلاک فرمادیں جن کی قوتیں اس سے سخت تھیں اور جمع اس سے زیادہ ( ف۲۰۰ ) اور مجرموں سے ان کے گناہوں کی پوچھ نہیں ( ف۲۰۱ )
” تو اس نے کہا ” یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے ” 97 ۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ 98 مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے ۔ 99
وہ کہنے لگا: ( میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں ) مجھے تویہ مال صرف اس ( کسبی ) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے ۔ کیا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا تھا جو طاقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور ( مال و دولت اور افرادی قوت کے ) جمع کرنے میں کہیں زیادہ ( آگے ) تھیں ، اور ( بوقتِ ہلاکت ) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں ( مزید تحقیق یا کوئی عذر اور سبب ) نہیں پوچھا جائے گا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 97 اصل الفاظ ہیں اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ میں نے جو کچھ پایا ہے اپنی قابلیت سے پایا ہے ، یہ کوئٰ فضل نہیں ہے جو استحقاق کے بجائے احسان کے طور پر کسی نے مجھ کو دیا ہو اور اب مجھے اس کا شکریہ اس طرح ادا کرنا ہو کہ جن نااہل لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا ہے انہیں میں فضل و احسان کے طور پر اس میں سے کچھ دوں ، یا کوئی خیرات اس غرض کے لیے کروں کہ یہ فضل مجھ سے چھین نہ لیا جائے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے نزدیک تو خدا نے یہ دولت جو مجھے دی ہے میرے اوصاف کو جانتے ہوئے دیہے ، اگر میں اس کی نگاہ میں ایک پسندیدہ انسان نہ ہوتا تو یہ کچھ مجھے کیوں دیتا ۔ مجھ پر اس کی نعمتوں کی بارش ہونا ہی اس کی اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کا محبوب ہوں اور میری روش اس کو پسند ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 98 یعنی یہ شخص جو بڑا عالم و فاضل اور دانا و باخبر بنا پھر رہا تھا اور اپنی قابلیت کا یہ کچھ غرہ رکھتا تھا اس کے علم میں کیا یہ بات کبھی نہ آئی تھی کہ اس سے زیادہ دولت و حشمت اور قوت و شوکت والے اس سے پہلے دنیا میں گزر چکے ہیں اور اللہ نے انہیں آخر کار تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ؟ اگر قابلیت اور ہنرمندی ہی دنیوی عروج کے لیے کوئی ضمانت ہے تو ان کی یہ صلاحیتیں اس وقت کہاں چلی گئی تھیں جب وہ تباہ ہوئے؟ اور اگر کسی کو دنیوی عروج نصیب ہونا لازما اسی بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالی اس شخص سے خوش ہے اور اس کے اعمال و اوصاف کو پسند کرتا ہے تو پھر ان لوگوں کی شامت کیوں آئی؟ سورة القصص حاشیہ نمبر : 99 یعنی مجرم تو یہی دعوی کیا کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے لوگ ہیں ، وہ کب مانا کرتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی برائی ہے ، مگر ان کی سزا ان کے اپنے اعتراف پر منحرف ہوتی ، انہیں جب پکڑا جاتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑا جاتا کہ بتا تمہارے گناہ کیا ہیں ۔
اپنی عقل ودانش پہ مغرور قارون قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئے میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا ، میں ایک عقلمند زیرک ، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لئے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے ۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت وراحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت ( قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ۭ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا ۭ وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ 78؀ ) 28- القصص:78 ) یعنی اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لئے اس نے مجھے یہ دیا ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ اگر ہم اسے کوئی رحمت چھکائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ اٹھتا ہے کہ ھذا لی اس کا حقدار تو میں تھاہی ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے ۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں ۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہوجائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے ۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادے ۔ یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں ۔ ان کے لئے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کرسکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنادیتا ہے مثلا لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت وضلالت ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے ۔ لیکن حقیقتا یہ ناممکن ہے ۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کرکے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں ۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا ، نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے ، نہ کوئی کاری گری ، صنعت یا علم ہے ۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے ۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت حیوہ بن شریح مصری سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اسکی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے ۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کرکے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا ۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں ۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہوگا ۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہوگیا ۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کردیتا ہوں نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں کو میں نے تباہ کردیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے ، محض غلط ہے ۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے ۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا ۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لئے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا ۔