Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَاِبۡرٰهِيۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿16﴾
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) نے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو ، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔
و ابرهيم اذ قال لقومه اعبدوا الله و اتقوه ذلكم خير لكم ان كنتم تعلمون
And [We sent] Abraham, when he said to his people, "Worship Allah and fear Him. That is best for you, if you should know.
Aur ibrahim ( alh-e-salam ) ney bhi apni qom say farmaya kay Allah Taalaa ki ibadat kero aur uss say dartay raho agar tum mein daanaaee hai to yehi tumharay liye behtar hai.
اور ہم نے ابراہیم کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اللہ کی عبادت کرو ، اور اس سے ڈرو یہی بات تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم سمجھ سے کام لو ۔
اور ابراہیم کو ( ف۳۵ ) جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ کو پوجو اور اس سے ڈرو ، اس میں تمہارا بھلا ہے اگر تم جانتے ،
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کو بھیجا 26 جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا: ” اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو ۔ 27 یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ( یاد کریں ) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو ، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم ( حقیقت کو ) جانتے ہو
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 26 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ، البقرہ رکوع 15 ۔ 16 ۔ 35 ۔ آل عمران 7 ۔ الانعام 9 ۔ ہود 7 ۔ ابراہیم 6 ۔ الحجر 4 ۔ مریم 3 ۔ الانبیاء 5 ۔ الشعراء 5 ۔ الصافات 3 ۔ الزخرف 3 ۔ الذاریات 2 ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 27 یعنی اس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو ۔
ریاکاری سے بچو امام الموحدین ابو المرسلین خلیل اللہ علیہ الصلوات اللہ کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید اللہ کی دعوت دی ریاکاری سے بچنے اور دل میں پرہیز گاری قائم کرنے کا حکم دیا اس کی نعمتوں پر شکرگزاری کرنے کو فرمایا ۔ اور اس کا نفع بھی بتایا کہ دنیا اور آخرت کی برائیاں اس سے دور ہوجائیں گی اور دونوں جہان کی نعمتیں اس سے مل جائیں گی ۔ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ جن بتوں کی تم پرستش کررہے ہو ۔ یہ تو بےضرر اور بےنفع ہے تم نے خود ہی ان کے نام اور ان کے اجسام تراش لئے ہیں ۔ وہ تو تمہاری طرح مخلوق ہیں بلکہ تم سے بھی کمزور ہیں ۔ یہ تمہاری روزیوں کے بھی مختار نہیں ۔ اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو ۔ اسی حصہ کے ساتھ آیت ( ایاک نعبد وایاک نستعین ) بھی ہے کہ ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ یہی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دعا میں ہے آیت ( رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 11۝ۙ ) 66- التحريم:11 ) اے اللہ میرے لئے اپنے پاس ہی جنت میں مکان بنا ۔ چونکہ اس کے سوا کوئی رزق نہیں دے سکتا اس لئے تم اسی سے روزیاں طلب کرو اور جب اس کی روزیاں کھاؤ تو اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو ۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ تم میں سے ہر ایک اسی کی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ ہر عامل کو اسکے عمل کا بدلہ دے گا ۔ دیکھو مجھے جھوٹا کہہ کر خوش نہ ہو نظریں ڈالو کہ تم سے پہلے جنہوں نے نبیوں کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا تھا ان کی کیسی درگت ہوئی؟ یاد رکھنا نبیوں کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے ۔ ہدایت عدم ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اپنے آپ کو سعات مندوں میں بناؤ بدبختوں میں شامل نہ کرو ۔ حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید تشفی کی گئی ہے اس مطلب کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلاکام ختم ہوا ۔ اور یہاں سے لے کر آیت ( فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 24؀ ) 29- العنكبوت:24 ) تک یہ سب عبارت بطور جملہ معترضہ کے ہے ۔ ابن جریر نے تو کھلے لفظوں میں یہی کہا ہے ۔ لیکن الفاظ قرآن سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کلام حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا ہے آپ قیامت کے قائم ہونے کی دلیلیں پیش کررہے ہیں کیونکہ اس تمام کلام کے بعد آپ کی قوم کا جواب ذکر ہوا ہے ۔