Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
اَوَلَمۡ يَرَوۡا كَيۡفَ يُبۡدِئُ اللّٰهُ الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ‏ ﴿19﴾
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعادہ کرے گا یہ تو اللہ تعالٰی پر بہت ہی آسان ہے ۔
او لم يروا كيف يبد الله الخلق ثم يعيده ان ذلك على الله يسير
Have they not considered how Allah begins creation and then repeats it? Indeed that, for Allah , is easy.
Kiya enhon ney nahi dekha kay makhlooq ki ibtida kissa tarah Allah ney ki phir Allah iss ka aey-aada keray ga yeh to Allah Taalaa per boht hi aasan hai.
بھلا کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح مخلوق کو شروع میں پیدا کرتا ہے ؟ پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا ، یہ کام تو اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا اللہ کیونکر خلق کی ابتداء فرماتا ہے ( ف٤۱ ) پھر اسے دوبارہ بنائے گا ( ف٤۲ ) بیشک یہ اللہ کو آسان ہے ( ف٤۳ )
کیا 31 ان لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے ، پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقینا یہ ﴿اعادہ تو﴾ اللہ کے لیے آسان تر ہے ۔ 32
کیا انہوں نے نہیں دیکھا ( یعنی غور نہیں کیا ) کہ اللہ کس طرح تخلیق کی ابتداء فرماتا ہے پھر ( اسی طرح ) اس کا اعادہ فرماتا ہے ۔ بیشک یہ ( کام ) اللہ پر آسان ہے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 31 یہاں سے لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ( ان کے لیے دردناک سزا ہے ) تک ایک جملہ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیم کے قصے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالی نے کفار مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے ۔ اس اعتراضی تقریر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار مکہ جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے وہ بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے ۔ ایک شرک و بت پرستی ، دوسرے انکار آخرت ۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے ۔ اب دوسری گمراہیم کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالی اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہوجائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 32 یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں ، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں ۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے ۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا ، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے ، اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر ایک ہی دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے ، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مرجانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کرسکتا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نمل حاشیہ 80 )
تمام نشانیاں دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ تھے پھر اللہ نے پیدا کردیا تاہم مر کر جینے کے قائل نہیں حالانکہ اس پر کسی دلیل کی ضروت نہیں کہ جو ابتداءاً پیدا کرسکتا ہے اس پر دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے ۔ پھر انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ زمین اور نشانیوں پر غور کرو ۔ آسمانوں کو ستاروں کو زمینوں کو پہاڑوں کو درختوں کو جنگلوں کو نہروں کو دریاؤں کو سمندروں کو پھلوں کو کھیتوں کو دیکھو تو سہی کہ یہ سب کچھ نہ تھا پھر اللہ نے سب کچھ کردیا کیا یہ تمام نشانیاں اللہ کی قدرت کو تم پر ظاہر نہیں کرتیں؟ تم نہیں دیکھتے کہ اتنا بڑا صانع وقدیر اللہ کیا کچھ نہیں کرسکتا ؟ وہ تو صرف ہوجا کے کہنے سے تمام کو رچا دیتا ہے وہ خود مختار ہے اسے اسباب اور سامان کی ضرورت نہیں ۔ اسی مضمون کو اور جگہ فرمایا کہ وہی نئی پیدائش میں پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت آسان ہے ۔ پھر فرمایا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے ابتدائی پیدائش کس طرح کی تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ قیامت کے دن کی دوسری پیدائش کی کیا کیفیت ہوگی ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جیسے فرمایا ہم انہیں دنیا کے ہر حصے میں اور خود ان کی اپنی جانوں میں اپنی نشانیاں اس قدر دکھائیں گے کہ ان پر حق ظاہر ہوجائے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ 35؀ۭ ) 52- الطور:35 ) کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے یا وہی اپنے خالق ہیں؟ یا وہ آسمان وزمین کے خالق ہیں ؟ کچھ نہیں بےیقین لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے وہ حاکم ہے قبضے والاہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے جاری کردیتا ہے ۔ کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا کوئی اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتا ۔ کوئی اس سے چوں چرا نہیں کرسکتا کوئی اس سے سوال نہیں کرسکتا اور وہ سب پر غالب ہے ۔ جس سے چاہے پوچھ بیٹھے سب اس کے قبضے میں اس کی ماتحتی میں ہیں ۔ خلق کا خالق امر کا مالک وہی ہے ۔ اس نے جو کچھ کیا سراسر عدل ہے اس لیے کہ وہی مالک ہے وہ ظلم سے پاک ہے ۔ حدیث شریف میں ہے اگر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب کرے تب بھی وہ ظالم نہیں ۔ عذاب رحم سب اس کی چیزیں ہیں ۔ سب کے سب قیامت کے دن اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اسی کے سامنے حاضر ہو کر پیش ہونگے ۔ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی اسے ہرا نہیں سکتا ۔ بلکہ سب پر وہی غالب ہے ۔ ہر ایک اس سے کانپ رہا ہے سب اس کے درد کے فقیر ہیں اور سب سے غنی ہے ۔ تمہارا کوئی ولی اور مددگار اس کے سوا نہیں ۔ اللہ کی آیتوں سے کفر کرنے والے اس کی ملاقات کو نہ ماننے والے اللہ کی رحمت سے محروم ہیں اور ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک الم افزا عذاب ہیں ۔