Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوۡمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا اقۡتُلُوۡهُ اَوۡ حَرِّقُوۡهُ فَاَنۡجٰٮهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿24﴾
ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس اسےمار ڈالو یا اسے جلا دو ۔ آخر اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا اس میں ایمان والوں لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں ۔
فما كان جواب قومه الا ان قالوا اقتلوه او حرقوه فانجىه الله من النار ان في ذلك لايت لقوم يؤمنون
And the answer of Abraham's people was not but that they said, "Kill him or burn him," but Allah saved him from the fire. Indeed in that are signs for a people who believe.
Unn ki qom ka jawab ba-juz iss kay kuch na tha kay kehney lagay kay issay maar dalo ya issay jala do. Aakhirish Allah ney unhen aag say bacha liya iss mein eman walay logon kay liye boht si nishaniyan hain.
غرض ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ انہوں نے کہا : قتل کر ڈالو اس کو یا جلا ڈالو اسے ۔ پھر اللہ نے ابراہیم کو آگ سے بچایا ۔ یقینا اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے بڑی عبرتیں ہیں جو ایمان لاتے ہیں ۔ ( ٩ )
تو اس کی قوم کو کچھ جواب بن نہ آیا مگر یہ بولے انھیں قتل کردو یا جلادو ( ف۵۳ ) تو اللہ نے اسے ( ف۵٤ ) آگ سے بچالیا ( ف۵۵ ) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے ( ف۵٦ )
پھر 37 اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ” قتل کر دو اسے یا جلا ڈالو اس کو ۔ 38 ” آخرکار اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا39 ، یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں ۔ 40
سو قومِ ابراہیم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: تم اسے قتل کر ڈالو یا اسے جلا دو ، پھر اللہ نے اسے ( نمرود کی ) آگ سے نجات بخشی ، بیشک اس ( واقعہ ) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لائے ہیں
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 37 یہاں سے پھر سلسلہ کلام حضرت ابراہیم کے قصے کی طرف مڑتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 38 یعنی حضرت ابراہیم کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا ۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے ۔ قتل کردو یا جلا ڈالو کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر متفق تھا کہ حضرت ابراہیم کو ہلاک کردیا جائے ، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا ۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے ، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تاکہ ہر شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 39 اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیم کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دیے گئے تھے ۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو آگ سے بچا لیا ۔ لیکن سورہ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور غیر مضر ہوگئی: قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ( آیت 69 ) ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا ۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصیتیں اللہ تعالی کے حکم پر مبنی ہیں ، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے ۔ معمول کے مطابق آگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے ۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے ۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کردیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے ۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے ، کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے ، کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ یہ غیر معمولی خرق عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے ، کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں ، لیکن معمولات کو جنہیں روز مرہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں ، اس بات کے لیے ہرگز دلیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اللہ تعالی کی قدرت ان سے بندھ گئی ہے اور خلاف معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہوسکتا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 40
عقلی اور نقلی دلائل حضرت ابراہیم کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کرسکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اس شقاوت کا مظاہرہ کیا جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے ۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہیں اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کرکے لکڑیوں میں آگ لگادی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلاکر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنادیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے ۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لئے اپنا جسم آپ نے میزان کے لئے اپنی اولاد آپ نے قربان کے لئے اپنا مال آپ نے فیضان کے لئے کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لئے باغ بنادیا اس واقعہ میں ایمانداروں کے لئے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ مودۃ زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے ۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہاری لئے گو دنیا کی محبت حاصل کرادے ۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہوجائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہوجائے گا ۔ ایک دوسرے سے جھگڑوگے ایک دوسرے پر الزام رکھوگے ایک دوسرے پرلعنتیں بھیجوگے ۔ ہر گروہ دوسرے گروپ پر پھٹکار برسائے گا ۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ہاں پرہیزگار نیک کار آج بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست رہیں گے ۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ گو اتنا بھی نہ ہوگا کہ ان کی کسی طرح مدد کرسکے ۔ حدیث میں ہے تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالیٰ ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ ہیں جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے ۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو! بت توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرمالیا ۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو تمہیں اللہ بدل دے گا ۔