Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوۡطٌ‌ۘ وَقَالَ اِنِّىۡ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّىۡ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿26﴾
پس حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) پر حضرت لوط ( علیہ السلام ) ایمان لائے اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں وہ بڑا ہی غالب اور حکیم ہے ۔
فامن له لوط و قال اني مهاجر الى ربي انه هو العزيز الحكيم
And Lot believed him. [Abraham] said, "Indeed, I will emigrate to [the service of] my Lord. Indeed, He is the Exalted in Might, the Wise."
Pus hazrat ibrahim ( alh-e-salam ) per hazrat loot ( alh-e-salam ) eman laye aur kehnay lagay kay mein apnay rab ki taraf hijrat kerney wala hun. Woh bara hi ghalib aur hakeem hai.
پھر لوط ان پر ایمان لائے ( ١١ ) اور ابراہیم نے کہا کہ : میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کر کے جارہا ہوں ( ١٢ ) وہی ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل
تو لوط اس پر ایمان لایا ( ف٦۲ ) اور ابراہیم نے کہا میں ( ف٦۳ ) اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں ( ف٦٤ ) بیشک وہی عزت و حکمت والا ہے ،
اس وقت لوط ( علیہ السلام ) نے اس کو مانا 44 ۔ اور ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں 45 ، وہ زبردست ہے اور حکیم ہے ۔ 46
پھر لوط ( علیہ السلام ) ان پر ( یعنی ابراہیم علیہ السلام پر ) ایمان لے آئے اور انہوں نے کہا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔ بیشک وہ غالب ہے حکمت والا ہے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 44 ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوط تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ان کو ماننے اور ان کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیم کی صداقت کے قائل ہوگئے ہوں ۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیم کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرات نہ کرسکا ۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط تھے جنہوں نے آخر کار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی ( حضرت سارہ ) کا ساتھ دیا ۔ یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کردینا ضروری ہے ۔ ایک شخس سوال کرسکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوط کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیم کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمت ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہوسکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوط خداوند عالم کو نہ مانتے ہوں ، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں ، بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیم کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کرلی ۔ ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں ، ممکن ہے کہ حضرت لوط اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شان رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 45 یعنی اپنے رب کی خاطر ملک چھوڑ کر نکلتا ہوں ، اب جہاں میرا رب لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 46 یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور میرے حق میں اس کا جو فیصلہ بھی ہوگا حکمت پر مبنی ہوگا ۔
حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ لوط بن ہارون بن آزر ۔ آپ کی ساری قوم میں سے ایک تو حضرت لوط ایمان لائے تھے اور ایک حضرت سارہ جو آپ کی بیوی تھی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کی بیوی صاحبہ کو اس ظالم بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے ذریعہ اپنے پاس بلوایا تو حضرت ابراہیم نے کہا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا رشتہ تم سے بھائی بہن کا بنایا ہے تم بھی یہی کہنا کیونکہ اس وقت دنیا پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی میاں بیوی ہمارے سوا ایماندار نہیں ۔ حضرت لوط آپ پر ایمان تو لائے مگر اسی وقت ہجرت کرکے شام چلے گئے تھے پھر اہل سدوم کی طرف نبی بناکر بھیج دئے گئے تھے جیسا کہ بیان گذرا اور آئے گا ۔ ہجرت کا ارادہ یا تو حضرت لوط علیہ السلام نے ظاہر فرمایا کیونکہ ضمیر کا مرجع اقرب تو یہی ہے ۔ یا حضرت ابراہیم نے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ۔ تو گویا حضرت لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنی قوم سے دست برداری کر لی اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اور کسی جگہ جاؤں شاید وہاں والے اللہ والے بن جائیں ۔ عزت اللہ کی اس کے رسول کی اور مومنوں کی ہے ۔ حکمت والے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت اللہ کی ہے ۔ قتادۃ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کرکے شام کے ملک کی طرف گئے ۔ حدیث میں ہے کہ ہجرت کے بعد کی ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہوگی ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں زمین تھوک دے گی اور اللہ ان سے نفرت کرے گا انہیں آگ سورؤں اور بندروں کے ساتھ ہنکاتی پھرے گی ۔ راتوں کو دنوں کو انہی کیساتھ رہے گی ۔ اور ان کی جھڑن کھاتی رہے گی ۔ اور روایت میں ہے جو ان میں سے پیچھے رہ جائے گا اسے یہ آگ کھا جائے گی اور مشرق کی طرف سے کچھ لوگ میری امت میں ایسے نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ان کے خاتمے کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہوگا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بیس سے بھی زیادہ بار اسے دہرایا ۔ یہاں تک کہ انہی کے آخری گروہ میں سے دجال نکلے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تو ہم پر وہ تھا کہ ہم ایک مسلمان بھائی کے لئے درہم ودینار کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے اپنی دولت اپنے بھائی کی ہی سمجھتے تھے پھر وہ زمانہ آیا کہ دولت ہمیں اپنے مسلم بھائی سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگی ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تم بیلوں کی دموں کے پیچھے لگ جاؤگے اور تجارت میں مشغول ہوجاؤگے اور اللہ کی راہ کاجہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردنوں میں ذلت کے پٹے ڈال دے گا جو اس وقت تک تم سے الگ نہ ہونگے جب تک کہ تم پھر سے وہیں نہ آجاؤ جہاں تھے اور تم توبہ نہ کرلو ۔ پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری اور فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہونگے جو قرآں پڑھیں گے اور بدعملیاں کریں گے قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان کے علم کو دیکھ کر تم اپنے علموں کو حقیر سمجھنے لگوگے ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے پس جب یہ لوگ ظاہر ہوں تو انہیں قتل کر دینا پھر نکلیں پھر مار ڈالنا پھر ظاہر ہوں پھر قتل کردینا ۔ وہ بھی خوش نصیب ہے جو ان کے ہاتھوں قتل کیا جائے اور وہ بھی خوش نصیب ہے جو انکو قتل کریں ۔ جب ان کے گروہ نکلیں گے اللہ انہیں برباد کردے گا پھر نکلیں گے پھر برباد ہوجائیں گے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیس مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار یہی فرمایا ۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام نامی بیٹا دیا اور اسحاق علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام نامی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جب خلیل اللہ نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ نے آپ کو اسحاق اور یعقوب دیا اور ہر ایک کو نبی بنایا ۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پوتا بھی آپ کی موجودگی میں ہوجائے گا اسحاق علیہ السلام بیٹے تھے اور یعقوب علیہ السلام پوتے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو اسحق کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی ۔ اور فرمایا کہ قوم کو چھوڑنے کے بدلے اللہ تمہارے گھر کی بستی یہ دے گا ۔ جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ پس ثابت ہوا کی حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے قرآن کی اور آیت میں ہے کہ تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام موت کا وقت آیا تو وہ اپنے لڑکوں سے کہنے لگے تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے کہا آپ کی اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام کے والد کی جو یکتا ہے اور واحد لاشریک ہے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام بن ابرہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو مروی ہے کہ اسحاق ویعقوب حضرت ابراہیم کے فرزند تھے اس سے مراد فرزند کے فرزند کو فرزند کہہ دینا ۔ یہ نہیں کہ صلبی فرزند دونوں تھے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو کہا ہے کہ ادنی آدمی بھی ایسی ٹھوکر نہیں کھاسکتا ۔ ہم نے انہی کی اولاد میں کتاب ونبوۃ رکھ دی ۔ خلیل کا خطاب انہیں کو ملا انہیں کہا گیا پھر ان کے بعد انہی کی نسل میں نبوت وحکمت رہی بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ تک تو یہ سلسلہ یونوی چلا ۔ بنواسرائیل کے اس آخری پیغمبر نے اپنی امت کو صاف کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نبی عربی قریشی ہاشمی خاتم الرسل سید اولاد آدم کی بشارت دیتا ہوں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا ہے آپ حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے ۔ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آپ کے سوائے اور نبی نہیں ہوا ۔ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ ہم نے انہیں دنیا کے ثواب بھی دئیے اور آخرت کی نیکیاں بھی عطا فرمائیں ۔ دنیا میں رزق وسیع ، جگہ پاک ، بیوی نیک ، سیرت جمیل اور ذکر حسن دیا ساری دنیا کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ باوجودیکہ اپنی اطاعت کی توفیق روز بروز اور زیادہ دی ۔ کامل اطاعت گزاری کی توفیق کے ساتھ دنیاکی بھلائیاں بھی عطا فرمائیں ۔ اور آخرت میں بھی صالحین میں رکھا ۔ جیسے فرمان ہے ابراہیم مکمل فرماں بردار تھے موحد تھے مشرکوں میں سے نہ تھے آخرت میں بھلے لوگوں کا ساتھی ہوا ۔