Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَعَادًا وَّثَمُوۡدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَـكُمۡ مِّنۡ مَّسٰكِنِهِمۡ‌ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ وَكَانُوۡا مُسۡتَـبۡصِرِيۡنَۙ‏ ﴿38﴾
اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے ۔
و عادا و ثمودا و قد تبين لكم من مسكنهم و زين لهم الشيطن اعمالهم فصدهم عن السبيل و كانوا مستبصرين
And [We destroyed] 'Aad and Thamud, and it has become clear to you from their [ruined] dwellings. And Satan had made pleasing to them their deeds and averted them from the path, and they were endowed with perception.
Aur hum ney aadiyon aur samoodiyon ko bhi gharat kiya jin kay baad makanaat tumharay samney zahir hain aur shetan ney unhen unn ki bad aemaaliyan aaraasta ker dikhaee thin aur unhen raah say rok diya tha bawajood yeh kay yeh aankhon walay aur hoshiyaar thay.
اور ہم نے عاد اور ثمود کو بھی ہلاک کیا ، اور ان کی تباہی تم پر ان کے گھروں سے واضح ہوچکی ہے ۔ ( ١٧ ) اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر انہیں راہ راست سے روک دیا تھا ، حالانکہ وہ سوجھ بوجھ کے لوگ تھے ۔ ( ١٨ )
اور عاد اور ثمود کو ہلاک فرمایا اور تمہیں ( ف۸۹ ) ان کی بستیاں معلوم ہوچکی ہیں ( ف۹۰ ) اور شیطان نے ان کے کوتک ( ف۹۱ ) ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے اور انھیں راہ سے روکا اور انھیں سوجھتا تھا ( ف۹۲ )
اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا ، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے ۔ 65 ان کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے ۔ 66
اور عاد اور ثمود کو ( بھی ہم نے ہلاک کیا ) اور بیشک ان کے کچھ ( تباہ شدہ ) مکانات تمہارے لیئے ( بطورِ عبرت ) ظاہر ہو چکے ہیں اور شیطان نے ان کے اَعمالِ بد ، ان کے لئے خوش نما بنا دیئے تھے اورانہیں ( حق کی ) راہ سے پھیر دیا تھا حالانکہ وہ بینا و دانا تھے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 65 عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا ۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف ، یمن اور حضرت موت کے نام سے معروف ہے ، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اور اہل عرب اس کو جانتے تھے ۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیما اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوں گے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 66 یعنی جاہل و نادان نہ تھے ۔ اپنے اپنے وقت کے بڑے ترقی یافتہ لوگ تھے ۔ اور اپنی دنیا کے معاملات انجام دینے میں پوری ہوشیاری اور دانائی کا ثبوت دیتے تھے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شیطان ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کی عقل سلب کر کے انہیں اپنے راستے پر کھینچ لے گیا ۔ نہیں ، انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر آنکھوں دیکھتے شیطان کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو اختیار کیا جس میں انہیں بڑی لذتیں اور منفعتیں نظر آتی تھیں اور انبیاء کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو چھوڑ دیا جو انہیں خشک اور بدمزہ اور اخلاقی پابندیوں کی وجہ سے تکلیف دہ نظر آتا تھا ۔
احقاف کے لوگ عادی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھے ۔ احقاف میں رہتے تھے جو یمن کے شہروں میں حضرموت کے قریب ہے ۔ ثمودی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے لوگ تھے ۔ یہ حجر میں بستے تھے جو وادی القریٰ کے قریب ہے ۔ عرب کے راستے میں ان کی بستی آتی تھی جسے یہ بخوبی جانتے تھے ۔ قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی ۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اسکا وزیر اعظم تھا ۔ اسی کے زمانے میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نبی ہو کر اس کی طرف بھیجے گئے ۔ یہ دونوں قبطی کافر تھے جب ان کی سرکشی حد سے گذر گئی اللہ کی توحید کے منکر ہوگئے رسولوں کو ایذائیں دیں اور ان کی نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا ۔ عادیوں پر ہوائیں بھیجیں ۔ انہیں اپنی قوت وطاقت کا بڑا گھمنڈ تھا کسی کو اپنے مقابلے کا نہ جانتے تھے ۔ ان پر ہوا بھیجی جو بڑی تیز وتند تھی جو ان پر زمین کے پتھر اڑا اڑا کر برسانے لگی ۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک بڑھ گئی کہ انہیں اچک لے جاتی اور آسمان کے قریب لے جاکر پھر گرا دیتی ۔ سر کے بل گرتے اور سر الگ ہوجاتا دھڑ الگ ہوجاتا اور ایسے ہوجاتے جیسے کجھور کے درخت جس کے تنے الگ ہوں اور شاخیں جدا ہوں ۔ ثمودیوں پر حجت الٰہی پوری ہوئی دلائل دے دئیے گئے ان کی طلب کے موافق پتھر میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی لیکن تاہم انہیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ طغیانی میں بڑھتے رہے ۔ اللہ کے نبی کو دھمکانے اور ڈرانے لگے اور ایمانداروں سے بھی کہنے لگے کہ ہمارے شہر چھوڑ دو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ انہیں ایک چیخ سے پارہ پارہ کردیا ۔ دل ہل گئے کلیجے اڑگئے اور سب کی روحیں نکل گئیں ۔ قارون نے سرکشی اور تکبر کیا ۔ طغیانی اور بڑائی کی رب الاعلیٰ کی نافرمانی کی زمین میں فساد مچا دیا ۔ اکڑ اکڑ کر چلنے لگا اپنے ڈنٹر بل دیکھنے لگا اترانے لگا اور پھولنے لگا ۔ پس اللہ نے اسے مع اس کے محلات کے زمین دوز کردیا جو آج تک دھنستاچلاجارہا ہے ۔ فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو صبح ہی صبح ایک ساتھ ایک ہی ساعت میں دریا برد کر دیا ۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچا جو ان کا نام تو کبھی لیتا ۔ اللہ نے یہ جو کچھ کیا کچھ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ ان کے ظلم کا بدلہ تھا ۔ ان کے کرتوت کا پھل تھا ان کی کرنی کی بھرنی تھی ۔ یہ بیان یہاں بطور لف ونشر کے ہے ۔ اولا جھٹلانے والی امتوں کا ذکر ہوا ہے پھر ان میں سے ہر ایک کو عذابوں سے ہلاک کرنیکا ۔ کسی نے کہا کہ سب سے پہلے جن پر پتھروں کا مینہ برسانے کا ذکر ہے ان سے مراد لوطی ہیں اور غرق کی جانے والی قوم قوم نوح ہے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ ابن عباس سے یہ مروی تو ہے لیکن سند میں انقطاع ہے ۔ ان دونوں قوموں کی حالت کا ذکر اسی صورت میں بہ تفصیل بیان ہوچکاہے ۔ پھر بہت سے فاصلے کے بعد یہ بیان ہوا ہے ۔ قتادۃ سے یہ بھی مروی ہے کہ پتھروں کا مینہ جن پر برسایا گیا ان سے مراد لوطی ہیں اور جنہیں چیخ سے ہلاک کیا گیا ان سے مراد قوم شعیب ہے لیکن یہ قول بھی ان آیتوں سے دور دراز ہے واللہ اعلم ۔