Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
مَثَلُ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ كَمَثَلِ الۡعَنۡكَبُوۡتِ ‌ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَيۡتًا ‌ؕ وَ اِنَّ اَوۡهَنَ الۡبُيُوۡتِ لَبَيۡتُ الۡعَنۡكَبُوۡتِ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿41﴾
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے ، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے کاش! وہ جان لیتے ۔
مثل الذين اتخذوا من دون الله اولياء كمثل العنكبوت اتخذت بيتا و ان اوهن البيوت لبيت العنكبوت لو كانوا يعلمون
The example of those who take allies other than Allah is like that of the spider who takes a home. And indeed, the weakest of homes is the home of the spider, if they only knew.
Jin logon ney Allah Taalaa kay siwa aur kaar saaz muqarrar ker rakhay hain unn ki misaal makri ki si hai kay woh bhi aik ghar bana leti hai halankay tamam gharon say ziyada boda ghar makri ka ghar hi hai kaash! Woh jaan letay.
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے رکھوالے بنا رکھے ہیں ، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے ، جس نے کوئی گھر بنا لیا ہو ، اور کھلی بات ہے کہ تمام گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے ۔ کاش کہ یہ لوگ جانتے ۔ ( ٢٤ )
ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں ( ف۱۰۱ ) مکڑی کی طرح ہے ، اس نے جالے کا گھر بنایا ( ف۱۰۲ ) اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر ( ف۱۰۳ ) کیا اچھا ہوتا اگر جانتے ( ف۱۰٤ )
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے ۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے ۔ 73
ایسے ( کافر ) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں ( یعنی بتوں ) کو کارساز بنا لیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے ( اپنے لئے جالے کا ) گھر بنایا ، اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے ، کاش! وہ لوگ ( یہ بات ) جانتے ہوتے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 73 اوپر جتنی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب شرک میں مبتلا تھیں اور اپنے معبودوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ہمارے حامی و مددگار اور سرپرست ( Guardians ) ہیں ، ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں ، ان کی پوجاپاٹ کر کے اور انہیں نذر و نیاز دے کر جب ہم ان کی سرپرستی حاصل کرلیں گے تو یہ ہمارے کام بنائیں گے اور ہم کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھیں گے ۔ لیکن جیسا کہ اوپر کے تاریخی واقعات میں دکھایا گیا ہے ، ان کے یہ تمام عقائد و اوہام اس وقت بالکل بے بنیاد ثابت ہوئے جب اللہ تعالی کی طرف سے ان کی بربادی کا فیصلہ کردیا گیا ۔ اس وقت کوئی دیوتا ، کوئی اوتار ، کوئی ولی ، کوئی روح اور کون جن یا فرشتہ ، جسے وہ پوچتے تھے ، ان کی مدد کو نہ آیا اور اپنی باطل توقعات کی ناکامی پر کف افسوس ملتے ہوئے وہ سب پیوند خاک ہوگئے ۔ ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالی مشرکین کو متنبہ کر رہا ہے کہ کائنات کے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں کے اعتماد پر جو توقعات کا گھروندا تم نے بنا رکھا ہے اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح مکڑی کا جالا ایک انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کرسکتا اسی طرح تمہاری توقعات کا یہ گھروندا بھی خدائی تدبیر سے پہلا تصادم ہوتے ہی پاش پاش ہوکر رہ جائے گا ۔ یہ محض جہالت کا کرشمہ ہے کہ تم اوہام کے اس چکر میں پڑے ہوئے ہو ۔ حقیقت کا کچھ بھی علم تمہیں ہوتا تو تم ان بے بنیاد سہاروں پر اپنا نظام حیات کبھی تعمیر نہ کرتے ۔ حقیقت بس یہ ہے کہ اختیارات کا مالک اس کائنات میں ایک رب العالمین کے سوا کوئی نہیں ہے اور اسی کا سہارا وہ سہارا ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 256 ) جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔
مکڑی کا جالا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی پرستش اور پوجاپاٹ کرتے ہیں ان کی کمزوری اور بےعلمی کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ ان سے مدد روزی اور سختی میں کام آنے کے امیدوار رہتے ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مکڑی کے جالے میں بارش اور دھوپ اور سردی سے پناہ چاہے ۔ اگر ان میں علم ہوتا تو یہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ کرتے ۔ پس ان کا حال ایمانداروں کے حال کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ ایک مضبوط کڑے کو تھامے ہوئے ہیں اور یہ مکڑی کے جالے میں اپنا سرچھپائے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل اللہ کی طرف ہے اس کا جسم اعمال صالحہ کی طرف مشغول ہے اور اس کا دل مخلوق کی طرف اور جسم اس کی پرستش کی طرف جھکا ہوا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈرا رہا ہے کہ وہ ان سے ان کے شرک سے اور ان کے جھوٹے معبودوں سے خوب آگاہ ہے ۔ انہیں ان کی شرارت کا ایسا مزہ چھکائے گا کہ یہ یاد کریں ۔ انہیں ڈھیل دینے میں بھی اس کی مصلحت وحکمت ہے ۔ نہ یہ کہ وہ علیم اللہ ان سے بےخبر ہو ۔ ہم نے تو مثالوں سے بھی مسائل سمجھا دئے ۔ لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کا مادہ ان میں غور و فکر کرنے کی توفیق صرف باعمل علماء کو ہوتی ہے ۔ جو اپنے علم میں پورے ہیں ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ کی بیان کردہ مثالوں کو سمجھ لینا سچے علم کی دلیل ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں ( مسند احمد ) اس سے آپ کی فضیلت اور آپ کی علمیت ظاہر ہے ۔ حضرت عمرو بن مروۃ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ شریف کی جو آیت میری تلاوت میں آئے اور اس کا تفصیلی معنوں کامطلب میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا دل دکھتا ہے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرنے لگتا ہوں کہ کہیں اللہ کے نزدیک میری گنتی جاہلوں میں تو نہیں ہوگئی کیونکہ فرمان اللہ یہی ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن سوائے عالموں کے انہیں دوسرے سمجھ نہیں سکتے ۔