Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِىۡ وَاسِعَةٌ فَاِيَّاىَ فَاعۡبُدُوۡنِ‏ ﴿56﴾
اے میرے ایمان والے بندو! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو ۔
يعبادي الذين امنوا ان ارضي واسعة فاياي فاعبدون
O My servants who have believed, indeed My earth is spacious, so worship only Me.
Aey meray eman walay bando! Meri zamin boht kushada hai so tum meri hi ibadat kero.
اے میرے بندو جو ایمان لاچکے ہو ! یقین جانو میری زمین بہت وسیع ہے ، لہذا خالص میری عبادت کرو ۔ ( ٣٠ )
اے میرے بندو! جو ایمان لائے بیشک میری زمین وسیع ہے تو میری ہی بندگی کرو ( ف۱۳٦ )
اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ، میری زمین وسیع ہے ، پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ ۔ 94
اے میرے بندو! جو ایمان لے آئے ہو بیشک میری زمین کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 94 یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مکے میں خدا کی بندگی کرنی مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ ، خدا کی زمین تنگ نہیں ہے ۔ جہاں بھی تم خدا کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ ۔ تم کو قوم و وطن کی نہیں بلکہ اپنے خدا کی بندگی کرنی چاہیے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز قوم ، وطن اور ملک نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اگر کسی وقت قوم و وطن اور ملک کی محبت کے تقاضے اللہ کی بندگی کے تقاضوں سے ٹکرا جائیں تو وہی وقت مومن کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے ۔ جو سچا مومن ہے وہ اللہ کی بندگی کرے گا اور قوم وطن اور ملک کو لات مار دے گا ۔ جو جھوٹا مدعی ایمان ہے وہ ایمان کو چھوڑ دے گا اور اپنی قوم اور اپنے ملک و وطن سے چمٹا رہے گا ۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے کہ ایک سچا خدا پرست انسان محب قوم و وطن تو ہوسکتا ہے مگر قوم پرست نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لیے خدا کی بندگی ہر چیز سے عزیز تر ہے جس پر دنیا کی ہر چیز کو وہ قربان کردے گا مگر اسے دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہ کرے گا ۔
مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت وتوحید بجالاسکیں وہاں چلے جائیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں جہاں تو بھلائی پاسکتا ہو وہیں قیام کر چنانچہ صحابہ اکرام پر جب مکہ شریف کی رہائش مشکل ہوگئی تو وہ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تاکہ امن وامان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کرسکیں وہاں کے سمجھدار دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی نے ان کی پوری تائید ونصرت کی اور وہاں وہ بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے ۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ نے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔ بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے ۔ تم خواہ کہیں ہو موت کے نیچے سے نجات نہیں پاسکتے پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جاکر عذاب میں نہ پھنسو ۔ ایماندار نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلندی وبالا منزلوں میں پہنچائے گا ۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ کہیں صاف شفاف پانی کی کہیں شراب طہور کی کہیں شہد کی کہیں دودھ کی ۔ یہ چشمیں خود بخود جہاں چاہیں بہنے لگیں گے ۔ یہ وہاں رہیں گے نہ وہاں سے نکالیں جائیں نہ ہٹائے جائیں گے نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی نہ ان میں گھاٹا آئے گا ۔ مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالا خانے انہیں مبارک ہوں ۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی ۔ اس کے دشمنوں کو ترک کیا اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش وعشرت پر لات ماردی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں خوش کلام نرم گو ہوں ۔ روزے نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوتے ہوئے ہوں ۔ یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہوں یا دنیوی اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں ۔ پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقیسم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو اسے وہ وہیں پہنچ جاتا ہے ۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہوگئے اور بادشاہ بن گئے فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں ۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے ۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے وہ کسی بھی صورت اپنی مخلوق کو نہیں بھولتا ۔ چینٹیوں کو ان کے سوراخوں میں پرندوں کو آسمان وزمین کے خلا میں مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝ ) 11-ھود:6 ) یعنی کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے ۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کرکے کھانے لگے ۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا ۔ میں نے کہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ ردی کجھوریں نہیں کھائی جائیں گی ۔ آپ نے فرمایا لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کھانا ملا ہی نہیں ۔ سنو اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر وکسریٰ کاملک دے دیتا ۔ اے ابن عمر تیرا کیا حال ہوگا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہوگا جو سال سال بھرکے غلے وغیرہ جمع کرلیاکریں گے ۔ اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودا ہوجائے گا ۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے جو آیت ( وکاین الخ ) ، نازل ہوئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے ۔ دیکھو میں تو نہ دینار ودرہم جمع کروں نہ کل کے لئے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کاراوی ابو العطوف جزی ضعیف ہے ۔ یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر وبال سفید ہوتے ہیں یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کرکے بھاگ جاتا ہے کچھ دنوں کے بعد ان پروں کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہوکر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں ۔ عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت وغنیمت ملے ۔ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو نفع اٹھاؤ گے روزے رکھو تندرست رہو گے جہاد کرو غنیمت ملے گی ۔ ایک اور روایت میں ہے جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات وسکنات کو جاننے والا ہے ۔