Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَمَا هٰذِهِ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا لَهۡوٌ وَّلَعِبٌ‌ؕ وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ لَهِىَ الۡحَـيَوَانُ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿64﴾
اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے کاش! یہ جانتے ہوتے ۔
و ما هذه الحيوة الدنيا الا لهو و لعب و ان الدار الاخرة لهي الحيوان لو كانوا يعلمون
And this worldly life is not but diversion and amusement. And indeed, the home of the Hereafter - that is the [eternal] life, if only they knew.
Aur duniya ki yeh zindagani to mehaz khel tamasha hai albatta aakhirat kay ghar ki zindagi hi haqeeqi zindagi hai kaash! Yeh jantay hotay.
اور یہ دنیوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں ( ٣٥ ) اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے ، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے ۔
اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود ( ف۱٤۹ ) اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے ( ف۱۵۰ ) کیا اچھا تھا اگر جانتے ( ف۱۵۱ )
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ۔ 102 اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے ، کاش یہ لوگ جانتے ۔ 103
اور ( اے لوگو! ) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی ( صحیح ) زندگی ہے ۔ کاش! وہ لوگ ( یہ راز ) جانتے ہوتے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 102 یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھاریں ۔ یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور اسی بے سروسامانی کے ساتھ وہ تخت شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا ۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے ، جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے ، اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مرے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر و ایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے در ماں ثابت ہو تو آخر اس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 103 یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے ، اور انسان کے لیے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، آخرت کی زندگی ہے تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اس لہو و لعب میں ضائع کرنے کے بجائے اس کا ایک ایک لمحہ ان کاموں میں استعمال کرتے جو اس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کرنے والے ہوں ۔
جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے دنیا کی حقارت وذلت اس کے زوال وفنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں اس کا کوئی ثبات نہیں یہ تو صرف لہو ولعب ہے ۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام وبقاکی زندگی ہے وہ زوال وفناسے قلت وذلت سے دورہے ۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے ۔ پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں ۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀ ) 17- الإسراء:67 ) یعنی جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آجاتے ہیں تو فورا ہی منہ پھیر لیتے ہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا اتفاقا سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی ۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے سب کہنے لگے یہ موقعہ صرف اللہ کو پکارنے کاہے اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے ۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا سنو اللہ کی قسم اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے ۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جاکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دونگا اور آپ کا کلمہ پڑھ لونگا ۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤں سے درگذر فرمالیں گے اور مجھ پر رحم وکرم فرمائیں گے چنانچہ یہی ہوا بھی آیت ( لیکفروا ) اور ( لیتمتعوا ) میں لام جو ہے اسے لام عافیت کہتے ہیں اس لئے کہ انکا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے ۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت ( فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ Ď۝ ) 28- القصص:8 ) میں کرچکے ہیں ۔