سورة الروم حاشیہ نمبر : 14
یعنی اللہ تعالی کی طرف پلٹنے اور اس کے حضور پیش ہونے کی ساعت ۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 15
اصل میں لفظ ابلا من استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بنا پر کسی شخص کا گم سم ہوجانا ، امید کے سارے راستے بند پاکر حیران و ششدر رہ جانا ، کوئی حجت نہ پاکر دم بخود رہ جانا ۔ یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے تو ذہن کے سامنے اس کی یہ تصویر آتی ہے کہ ایک شخص عین حالت جرم میں بھرے ہاتھوں ( Red- Handed ) پکڑا گیا ہے ، نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے ، نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کر کے بچ نکلنے کی توقع رکھتا ہے ، اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران و پریشان کھڑا ہے ۔
اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل ، چوری ، ڈاکے اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں ، بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے ، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے ، آخرت کی جواب دہی کے منکر یا اس سے بے فکر رہے ہیں ، اور دنیا میں خدا کے بجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتے رہے ہیں ، خواہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتا ہے ۔ مزید برآں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر ، اس کے رسولوں پر ایمان لاکر ، آخرت کا اقرار کر کے پھر دانستہ اپنے رب کی نافرمانیاں کی ہیں اور آخر وقت تک اپنی اس باغیانہ روش پر ڈٹے رہے ہیں ۔ یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالم آخرت میں یکایک جی اٹھیں گے اور دیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دسری زندگی پیش آگئی ہے جس کا انکار کر کے ، یا جسے نظر انداز کر کے وہ دنیا میں کام کرتے رہے تھے تو ان کے حواس باختہ ہوجائیں گے اور وہ کیفیت ان پر طاری ہوگی جس کا نقشہ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے ۔