Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يَوۡمَٮِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوۡنَ‏ ﴿14﴾
اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن ( جماعتیں ) الگ الگ ہوجائیں گی ۔
و يوم تقوم الساعة يومىذ يتفرقون
And the Day the Hour appears - that Day they will become separated.
Aur jiss din qayamat qaeem hogi uss din ( jamaten ) alag alag hojayen gi.
اور جس دن قیامت برپا ہوگی ، اس روز لوگ مختلف قسموں میں بٹ جائیں گے ۔
اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن الگ ہوجائیں گے ( ف۲۳ )
جس روز وہ ساعت برپا ہوگی ، اس دن ﴿سب انسان﴾ الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ۔ 18
اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن لوگ ( نفسا نفسی میں ) الگ الگ ہو جائیں گے
سورة الروم حاشیہ نمبر : 18 یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم ، نسل ، وطن ، زبان ، قبیلہ و برادری ، اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ، اس روز ٹوٹ جائیں گی ، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسرے گروہ بندی ہوگی ۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہوگا ۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ ولگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں ، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی ۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے ۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں ، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسرے امت میں ، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو ۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہوسکتی ۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہوسکتا ہے ۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے ۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے ، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسرے ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے ، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں ۔ یہی تخیل ابوجہل اور ابو لہب اور سرداران قریش کا تھا ، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آکر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے ۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کررہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں ، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اسی عقیدے اور نظریہ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہونے والی ہے جس پر اسلام دنیا کی اس زندگی میں کرنا چاہتا ہے ۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہوسکتی ہے ۔