Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
فَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ حِيۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَحِيۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ‏ ﴿17﴾
پس اللہ تعالٰی کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو ۔
فسبحن الله حين تمسون و حين تصبحون
So exalted is Allah when you reach the evening and when you reach the morning.
Pus Allah Taalaa ki tasbeeh parha kero jab kay tum shaam kero aur jab subah kero.
لہذا اللہ کی تسبیح کرو اس وقت بھی جب تمہارے پاس شام آتی ہے ، اور اس وقت بھی جب تم پر صبح طلوع ہوتی ہے ۔
تو اللہ کی پاکی بولو ( ف۲۷ ) جب شام کرو ( ف۲۸ ) اور جب صبح ہو ( ف۲۹ )
پس 22 تسبیح کرو اللہ کی 23 جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو ۔
پس تم اﷲ کی تسبیح کیا کرو جب تم شام کرو ( یعنی مغرب اور عشاء کے وقت ) اور جب تم صبح کرو ( یعنی فجر کے وقت )
سورة الروم حاشیہ نمبر : 22 یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ نیز یہ پس اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیات اخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالی کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں ۔ لہذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اس کمزوری سے اس کے پاک ہونے کا اعلان کرو ۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے تمام اہل ایمان ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 23 اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد ان تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکار آخرت سے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس ذات بے ہمتاکے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے ۔ اس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے ۔ اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ابن زید ( رضی اللہ عنہم ) اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھنا ہے ۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو ، تب بھی ان اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے ۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔
خالق کل مقتدر کل ہے اس رب تعالیٰ کا کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے ۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے ۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کاجملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کردیا کہ زمین وآسمان میں قابل حمد وثنا وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے ۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گذرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا ۔ جو پوری اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے ۔ بیشک تمام پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے ۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ آیت ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ ) 91- الشمس:3 ) اور ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) ٰ ( اور ) ( وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1-2 ) وغیرہ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا نام خلیل ( وفادار ) کیوں رکھا ؟ اس لئے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھاکرتے تھے ۔ پھر آپ نے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ سے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ ) 30- الروم:18 ) تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح وشام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پالیا ۔ پھر بیان فرمایا کہ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے ۔ ہر شے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت درخت سے دانے مرغی سے انڈہ انڈے سے مرغی نطفے سے انسان انسان سے نطفہ مومن سے کافر کافر سے مومن غرض ہر چیز اور اسکے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ۔ خشک زمین کو وہی تر کرتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ خشک زمین کا ترو تازہ ہو کر طرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے ۔ ایک اور آیت میں ہے تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتاہو دوبوند سے تر کرکے میں لہلہادیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کردیتا ہوں ۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا ۔ یہاں فرمایا اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کرکے کھڑے کردئیے جاؤ گے ۔