سورة الروم حاشیہ نمبر : 22
یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ نیز یہ پس اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیات اخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالی کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں ۔ لہذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اس کمزوری سے اس کے پاک ہونے کا اعلان کرو ۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے تمام اہل ایمان ہیں ۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 23
اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد ان تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکار آخرت سے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس ذات بے ہمتاکے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے ۔ اس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے ۔ اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ابن زید ( رضی اللہ عنہم ) اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھنا ہے ۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو ، تب بھی ان اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے ۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔