Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَلَـهُ الۡحَمۡدُ فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَعَشِيًّا وَّحِيۡنَ تُظۡهِرُوۡنَ‏ ﴿18﴾
تمام تعریفوں کے لائق آسمان و زمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی ( اس کی پاکیزگی بیان کرو )
و له الحمد في السموت و الارض و عشيا و حين تظهرون
And to Him is [due all] praise throughout the heavens and the earth. And [exalted is He] at night and when you are at noon.
Tamam tareefon kay laeeq aasman-o-zamin mein sirf wohi hai teesray pehar bhi aur zohar kay waqt bhi ( uss ki pakeezgi biyan kero ) .
اور اسی کی حمد ہوتی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی ۔ اور سورج ڈھلنے کے وقت بھی ( اس کی تسبیح کرو ) اور اس وقت بھی جب تم پر ظہر کا وقت آتا ہے ۔
اور اسی کی تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں ( ف۳۰ ) اور کچھ دن رہے ( ف۳۱ ) اور جب تمہیں دوپہر ہو ( ف۳۲ )
آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے ۔ اور ﴿تسبیح کرو اس کی﴾ تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے ۔ 24
اور ساری تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے ہیں اور ( تم تسبیح کیا کرو ) سہ پہر کو بھی ( یعنی عصر کے وقت ) اور جب تم دوپہر کرو ( یعنی ظہر کے وقت )
سورة الروم حاشیہ نمبر : 24 اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے ۔ فجر ، مغرب ، عصر اور ظہر ۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں ، حسب ذیل ہیں: اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ( نبی اسرائیل ، آیت 78 ) نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک ، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو ۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ( ہود ، آیت 114 ) اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ ( طہ ، آیت 130 ) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو ، اور دن کے کناروں پر ۔ ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوال آفتاب کے بعد سے عشا تک ہیں ، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے ۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ۔ تیسری آیت میں قبل طلوع آفتاب سے مراد فجر اور قبل غروب سے مراد عصر ۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشا دونوں شامل ہیں ۔ اور دن کے کنارے تین ہیں ، ایک صبح ، دوسرے زوال آفتاب ، تیسرے مغرب ۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض ان آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کرسکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلم قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے ۔ یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھہر کر منکرین حدیث کی اس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ نماز پڑھنے کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے ۔ ان کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ نظام ربوبیت قائم کرنا ہے ۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کون سا نرالا نظام ربوبیت ہے جسے یا تو طلوع آفتاب سے پہلے قائم کیا جاسکتا ہے یا پھر زوال آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کون سا نظام ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ( الجمعہ ، آیت 9 ) اور نظام ربوبیت کی آخر وہ کون سی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کرلے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالت جناب میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کرلے اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ( النساء ، آیت 43 ) اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظام ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہوگا ؟ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور یہ کیسا عجیب نظام ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرلے؟ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ( النساء ، آیت 101 ) پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں ، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلا جائے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس نظام ربوبیت کو قائم کرنا شروع کردے وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ ۣفَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ ۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ ( النساء ، آیت 102 ) قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامت صلوۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں ، لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالی کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہوجائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں ۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہو ۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ 50 بھی ملاحظۃ ہو )