Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ تَنۡتَشِرُوۡنَ‏ ﴿20﴾
اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر ( چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو ۔
و من ايته ان خلقكم من تراب ثم اذا انتم بشر تنتشرون
And of His signs is that He created you from dust; then, suddenly you were human beings dispersing [throughout the earth].
Allah ki nishaniyon mein say hai kay uss ney tum ko mitti say peda kiya phir abb insan bann ker ( chaltay phirtay ) phel rahey ho.
اور اس کی ( قدرت کی ) ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر تم دیکھتے ہی دیکھتے انسان بن کر ( زمین میں ) پھیلے پڑے ہو ۔ ( ٧ )
اور اس کی نشانیوں سے ہے یہ کہ تمہیں پیدا کیا مٹی سے ( ف۳۷ ) پھر جبھی تو انسان ہو دنیا میں پھیلے ہوئے ،
اس 26 کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ ( زمین میں ) پھیلتے چلے جا رہے ہو ۔ 27
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم انسان ہو جو ( زمین میں ) پھیلے ہوئے ہو
سورة الروم حاشیہ نمبر : 26 خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالی کی جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلہ کلام کی مناسبت سے حیات اخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں ، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں ، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق ، مدبر ، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے ۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ماسبق ما بعد دونوں کے ساتھ مربوط ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 27 یعنی انسان کا مایہ تخلیق اس کے سوا کیا ہے کہ چند بے جان مادے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلا کچھ کاربن ، کچھ کیلشیم ، کچھ سوڈیم اور ایسے ہی چند اور عناصر ۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بنا کھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اور اس کے اندر احساسات ، جذبات ، شعور ، تعقل اور تخیل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کردی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقا ایسا بن کھڑا ہوا ہو ، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کردی گئی جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحیتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حد و حساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں ۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہوگئی ہے؟ کیا تم بحالت ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حد و حساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کردینا بہت سے خداؤں کی فکر و تدبیر کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟
بتدریج نظام حیات فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ تم سب کو اس نے بےوقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا ۔ پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا ۔ پھر روح پھونکی ، آنکھ ، کان ، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا ، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا ، دن بدن طاقتور اور مضبوط قدآور زورآور کیا ، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے ۔ سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے ۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے ۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا ۔ پاک ہے وہ اللہ جو ہر چیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے ۔ شکل وصورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل وہنر میں بھلائی برائی میں سعادت وشقات میں ہر ایک کو جداگانہ کردیا ۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسرے میں دیکھ لے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لیکر اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں ۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بدخلق وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو ۔ یہ اس لئے کہ تمہیں ان سے سکوں وراحت آرام وآسائش حاصل ہو ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے ۔ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت ورحمت ان میں نہ ہوسکتی ۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے ۔ ان میں آپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یاغم کھاکر اس کا خیال رکھتا ہے ۔ اس لئے کہ اس سے اولاد ہو چکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں ۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گذارتا ہے ۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ادنی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے ۔