Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً  ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿21﴾
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
و من ايته ان خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا اليها و جعل بينكم مودة و رحمة ان في ذلك لايت لقوم يتفكرون
And of His signs is that He created for you from yourselves mates that you may find tranquillity in them; and He placed between you affection and mercy. Indeed in that are signs for a people who give thought.
Aur uss ki nishaniyon mein say hai kay tumhari hi jins say biwiyan peda ki takay tum inn say aaram pao uss ney tumharay darmiyan mohabbat aur humdardi qaeem kerdi yaqeenan ghor-o-fiker kerney walon kay liye iss mein boht si nishaniyan hain.
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں ، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو ، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے ، ( ٨ ) یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں ۔
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی ( ف۳۸ ) بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے ،
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں 28 تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو 29 اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ۔ 30 یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔
اور یہ ( بھی ) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ، بیشک اس ( نظامِ تخلیق ) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں
سورة الروم حاشیہ نمبر : 28 یعنی خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں ( Sexes ) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں ، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے ، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت ، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں ۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے ، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں ۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغاز آفرینش سے برابر اس تناسب کے ساتھ پید کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں ، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں ۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعا کوئی دخل نہیں ہے ۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اس معاملہ میں اثر انداز ہوسکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں ، اور نہ اس معاملہ ہی میں اس کے اپس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے ۔ ہزار ہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقا بھی نہیں ہوسکتا اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہوسکتا ۔ یہ چیز صریحا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالق حکیم ، اور ایک ہی خالق حکیم نے اپنی غالب حکمت و قدرت سے ابتداء مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا ، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 29 یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیا ہے بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس ، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے ، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں ۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا ، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے ۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کردی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو ان کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مدبل بسکون نہیں ہوسکتا ، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی ، لیکن کسی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا ۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ امنگ ، وہ پیاس ، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دیی جسے سکون میسر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر نہ رہیں ۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا ۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے ۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدن کا نشو و نما ہوا ۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں ۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں گھر کی تاسیس پر مجبور کردیا گیا ۔ کون صاحب عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکات فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقا سرزد ہوگیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کرسکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزارہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کرتے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کرسکتے ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 30 محبت سے مراد یہاں جنسی محبت ( Sexual Love ) ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انہیں ایک دوسرے سے چسپاں کیے رکھتی ہے ۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے ، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ، ہمدرد و غم خوار اور شریک رنج و راحت بن جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب جنسی محبت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ دو مثبت طاقتیں ہیں جو خالق نے اس ابتدائی اضطراب کی مدد کے لیے انسان کے اندر پیدا کی ہیں جس کا ذکر اوپر گزرا ہے ۔ وہ اضطراب تو صرف سکون چاہتا ہے اور اس کی تلاش میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کر ان کے درمیان مستقل رفاقت کا ایسا رشتہ جوڑ دیتی ہیں جو دو الگ ماحولوں میں پرورش پائے ہوئے اجنبیوں کو ملا کر کچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہے کہ عمر بھر وہ زندگی کے منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت و رحمت جس کا تجربہ کروڑوں انسانوں کو اپنی زندگی میں ہو رہا ہے ، کوئی مادی چیز نہیں ہے جو وزن اور پیمائش میں آسکے ، نہ انسانی جسم کے عناصر ترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے ، نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے اسباب کا کھوج لگایا جاسکتا ہے ۔ اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ ایک خالق حکیم نے بالارادہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کے ساتھ اسے نفس انسانی میں ودیعت کردیا ہے ۔