Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَابۡتِغَآؤُكُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿23﴾
اور ( بھی ) اس کی ( قدرت کی ) نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل ( یعنی روزی ) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے جو لوگ ( کان لگا کر ) سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
و من ايته منامكم باليل و النهار و ابتغاؤكم من فضله ان في ذلك لايت لقوم يسمعون
And of His signs is your sleep by night and day and your seeking of His bounty. Indeed in that are signs for a people who listen.
Aur ( bhi ) uss ki ( qudrat ki ) nishani tumhari raton aur din ki neend mein hai aur uss kay fazal ( yani rozi ) ko tumhara talash kerna bhi hai. Jo log ( kaan laga ker ) sunnay kay aadi hain unn kay liye iss mein boht si nishaniyan hain.
اور اس کی نشانیوں کا ایک حصۃ تمہارا رات اور دن کے وقت سونا اور اللہ کا فضل تلاش کرنا ہے ۔ ( ٩ ) یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو بات سنتے ہوں ۔
اور اس کی نشانیوں میں ہے رات اور دن میں تمہارا سونا ( ف٤۰ ) اور اس کا فضل تلاش کرنا ( ف٤۱ ) بیشک اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کے لیے ( ف٤۲ )
اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے ۔ 33 یقینا اس میں سے بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ﴿غور سے﴾سنتے ہیں ۔
اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کے فضل ( یعنی رزق ) کو تمہارا تلاش کرنا ( بھی ) ہے ۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ( غور سے ) سنتے ہیں
سورة الروم حاشیہ نمبر : 33 فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا ہے ۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدو جہد کرتا ہے ، لیکن یہ کلیہ نہیں ہے ۔ بہت سے انسان دن کو بھی سوتے اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو ۔ یہ چیز بھی ان نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالق حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں ۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے ۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے ۔ اس غرض کے لیے خالق حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس ، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اس نے نیند کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر ، حتی کہ اس کی مزاحمت کے باوجود ، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آ دبوچتا ہے ، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے ، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے ۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے ۔ یہ قطعا ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے ۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے ۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے ۔ مزید برآں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوت کار کو ہی نہیں ، قوت حیات تک کو ختم کر ڈالتا ۔ پھر رزق کی تلاش کے لے اللہ کے فضل کی تلاش کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کرسکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا ، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کردیے گئے ہوتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ رزق کی یہ تلاش اور اس کا اکتساب اسی صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں ۔ پس آدمی کے اندر تلاش رزق کی قابلیت اور اس کے وجود سے باہر وسائل رزق کی موجودگی ، صاف صاف ایک رب رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے ۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کرسکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقا ہوگیا ہے ، یا یہ بہت سے خداؤں کا کرشمہ ہے ، یا کوئی بے درد اندھی قوت اس فضل و کرم کی ذمہ دار ہے ۔