Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
ضَرَبَ لَكُمۡ مَّثَلًا مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ‌ؕ هَلْ لَّكُمۡ مِّنۡ مَّا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ مِّنۡ شُرَكَآءَ فِىۡ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ فَاَنۡتُمۡ فِيۡهِ سَوَآءٌ تَخَافُوۡنَهُمۡ كَخِيۡفَتِكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿28﴾
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کردیتے ہیں ۔
ضرب لكم مثلا من انفسكم هل لكم من ما ملكت ايمانكم من شركاء في ما رزقنكم فانتم فيه سواء تخافونهم كخيفتكم انفسكم كذلك نفصل الايت لقوم يعقلون
He presents to you an example from yourselves. Do you have among those whom your right hands possess any partners in what We have provided for you so that you are equal therein [and] would fear them as your fear of one another [within a partnership]? Thus do We detail the verses for a people who use reason.
Allah Taalaa ney tumharay liye aik misaal khud tumhari hi biyan farmaee jo kuch hum ney tumhen dey rakha hai kiya uss mein tumharay ghulamon mein say bhi koi tumhara shareek hai? Kiya tum aur woh iss mein barabar darjay kay ho? Aur tum inn ka aisa khatra rakhtay ho jaisa khud apno ka hum aqal rakhney walon kay liye issi tarah khol khol ker aayaten biyan ker detay hain.
وہ تمہیں خود تمہارے اندر سے ایک مثال دیتا ہے ۔ ہم نے جو رزق تمہیں دیا ہے ، کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں تمہارا شریک ہے کہ اس رزق میں تمہارا درجہ ان کے برابر ہو ( اور ) تم ان غلاموں سے ویسے ہی ڈرتے ہو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ ( ١١ ) ہم اسی طرح دلائل ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو عقل سے کام لیں ۔
تمہارے لیے ( ف۵۲ ) ایک کہاوت بیان فرماتا ہے خود تمہارے اپنے حال سے ( ف۵۳ ) کیا تمہارے لیے تمہارے ہاتھ کے غلاموں میں سے کچھ شریک ہیں ( ف۵٤ ) اس میں جو ہم نے تمہیں روزی دی ( ف۵۵ ) تو تم سب اس میں برابر ہو ( ف۵٦ ) تم ان سے ڈرو ( ف۵۷ ) جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو ( ف۵۸ ) ہم ایسی مفصل نشانیاں بیان فرماتے ہیں عقل والوں کے لیے ،
وہ تمہیں 39 خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے ۔ کیا تمہارے ان غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔
اُس نے ( نکتۂ توحید سمجھانے کے لئے ) تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو ( لونڈی ، غلام ) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں ، کہ تم ( سب ) اس ( ملکیت ) میں برابر ہو جاؤ ۔ ( مزید یہ کہ کیا ) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے ( نہیں ) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں ( کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے )
سورة الروم حاشیہ نمبر : 39 یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا چل رہا تھا ۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائل یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہورہا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 40 مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے ، اس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھہراتے تھے ، اور ان سے دعائیں مانگتے ، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے ، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے ۔ ان بناوٹی شریکوں کے بارے میں ان کا اصل عقیدہ اس تلبیہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے ۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبیک اللھم لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک ( طبرانی عن ابن عباس ) میں حاضر ہوں ، میرے اللہ میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرا اپنا ہے ، تو اس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے ۔ اللہ تعالی اس آیت میں اسی شرک کی تردید فرما رہا ہے ۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پاسکتے ، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ النحل حاشیہ 62 )
اپنے دلوں میں جھانکو! مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں ۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا ( لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک ) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے ۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے ۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہاہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں ۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں ۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں ۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں ۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری ۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو ۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے ۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے ۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا ۔