Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّيۡنِ حَنِيۡفًا ‌ؕ فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ‌ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ  وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۙ ‏ ﴿30﴾
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔
فاقم وجهك للدين حنيفا فطرت الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم و لكن اكثر الناس لا يعلمون
So direct your face toward the religion, inclining to truth. [Adhere to] the fitrah of Allah upon which He has created [all] people. No change should there be in the creation of Allah . That is the correct religion, but most of the people do not know.
Pus aap yeksoo hoker apna mun deen ki taraf mutawajja ker den. Allah Taalaa ki woh fitrat jiss per uss ney logon ko peda kiya hai Allah Taalaa kay banaye ko badlna nahi yehi seedah deen hai lekin aksar log nahi samajhtay.
لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ ( ١٣ ) اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ ( ١٤ ) یہی بالکل سیدھا راستہ ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
تو اپنا منہ سیدھا کرو اللہ کی اطاعت کے لیے ایک اکیلے اسی کے ہو کر ( ف٦۳ ) اللہ کی ڈالی ہوئی بنا جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( ف٦٤ ) اللہ کی بنائی چیز نہ بدلنا ( ف٦۵ ) یہی سیدھا دین ہے ، مگر بہت لوگ نہیں جانتے ( ف٦٦ )
پس 42﴿اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیرو﴾ یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین 43 کی سمت میں جمادو ، 44 قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، 45 اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی 46 ، یہی بالکل راست اور درست دین 47 ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔
پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں ۔ اﷲ کی ( بنائی ہوئی ) فطرت ( اسلام ) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے ( اسے اختیار کر لو ) ، اﷲ کی پیدا کردہ ( سرِشت ) میں تبدیلی نہیں ہوگی ، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ ( ان حقیقتوں کو ) نہیں جانتے
سورة الروم حاشیہ نمبر : 42 یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پر کھل چکی ، اور تم کو معلوم ہوگیا کہ اس کائنات اور خود انسان کا خالق و مالک اور حاکم ذی اختیار ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو اس کے بعد لا محالہ تمہارا طرز عمل یہ ہونا چاہیے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 43 اس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے ، جس میں بندگی ، عبادت اور اطاعت کا مستحق اللہ وحدہ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، جس میں الوہیت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعا کسی کو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا جاتا ، جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کرے گا ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 44 یک سو ہوکر اپنا رخ اس طرف جما دو یعنی پھر کسی اور طرف کا رخ نہ کرو ۔ زندگی کے لیے اس راہ کو اختیار کرلینے کے بعد پھر کسی دوسرے راستے کی طرف التفات تک نہ ہونے پائے ۔ پھر تمہاری فکر اور سوچ ہو تو مسلمان کی سی اور تمہاری پسند اور ناپسند ہو تو مسلمان کی سی ۔ تمہاری قدریں اور تمہارے معیار ہوں تو وہ جو اسلام تمہیں دیتا ہے ، تمہارے اخلاق اور تمہاری سیرت و کردار کا ٹھپہ ہو تو اس طرح کا جو اسلام چاہتا ہے اور تمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات چلیں تو اس طریقے پر جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 45 یعنی تمام انسان اس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی رب اور کوئی معبود اور مطاع حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے ۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہوجانا چاہیے ، اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کروگے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی غیر کا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے ۔ اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجاسنہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء ، ھل تحسون فیھا من جدعاء ۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ، اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور بر آمد ہوتا ہے ، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا ، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں ۔ مسند احمد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کردیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتی قتلوا الذریۃ ۔ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا ۔ ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا انما خیارکم ابناء المشرکین ۔ تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں ۔ پھر فرمایا کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فابواھا یھودانھا او ینصرانھا ۔ ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں ۔ ایک اور حدیث جو امام احمد نے عیاض بن حمار المجاشعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا: ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلھم وانھم اتتھم الشیاطین فاضلتھم عن دینھم وحرمت علیہم ما احللت لھم و امرتھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہ سلطانا ۔ میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا ، پھر شیاطین نے آکر انیں ان کے دین سے گمراہ کیا ، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا ، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 46 یعنی خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی ۔ نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتا ہے ، نہ کسی غیر خدا کو خدا بنا لینے سے وہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتا ہے ۔ انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنا بیٹھے ، لیکن یہ امر واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے ۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو بھی چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے ، مگر حقیقت نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالی کے سوا کسی کو حاصل نہیں نہ اس کے اختیارات ، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے ۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کیا جائے یعنی اللہ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا درست نہیں ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 47 یعنی فطرت سلیمہ پر قائم رہنا ہی سیدھا اور صحیح طریقہ ہے ۔
بچہ اور ماں باپ ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کردیا ہے اور جسے اے نبی آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے ۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے ۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرالیا گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے ۔ وہ حدیثیں عنقریب ان شاء اللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے ۔ لوگو اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو ۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت ( وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا 97؀ ) 3-آل عمران:97 ) میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا ۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل تغیر نہیں ۔ امام بخاری نے یہی معنی کئے ہیں کہ یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے بخاری شریف میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمان رسول ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں ۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ ) 30- الروم:30 ) مسند احمد میں ہے حضرت اسود بن سریع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کرڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کردیا ہے ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی آپ نے فرمایا نہیں نہیں ۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں ۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا نابالغوں کے قتل سے رک جانا ۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اسکے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنالیتے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آجائے ۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر ۔ مسند میں بروایت حضرت ابن عباس مروی ہے کہ حضور علیہ السلام سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں ۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کیساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کرکے مجھے سنایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے ۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں ۔ فرمایا کہ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے ۔ وہ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لئے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ۔ پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کردوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں؟ تو فرمایا سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا ۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کے لے اپنے نافرمانوں ۔ اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی ۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی ۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بےوقعت کمینے لوگ جو بےزر اور بےگھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں ۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا ۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل وعیال میں دھوکے میں رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکروفریب میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر آپ نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بد زبان بدگو ہیں ( مسلم وغیرہ ) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچے اور سیدھا دین ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ۔ ایک اور آیت میں ہے اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے ۔ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو اسی کی جانب جھکے رہو اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو ۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے ۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو ۔ حضرت معاذ سے حضرت عمر نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ نے سچ کہا ۔ تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے فرقوا کی دوسری قرأت فارقوا ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ۔ جیسے یہود ، نصاری ، مجوسی ، بت پرست سے اور دوسرے باطل مذاہب والے ۔ جیسے ارشاد ہے جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کر لی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہوگئیں تھی ۔ اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں ۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے ۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گذشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی ۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ( من کان علی ما انا علیہ واصحابی ) یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں ( برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن وحدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید؟ )