Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
مُنِيۡبِيۡنَ اِلَيۡهِ وَاتَّقُوۡهُ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ‏ ﴿31﴾
۔ ( لوگو! ) اللہ تعالٰی کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ۔
منيبين اليه و اتقوه و اقيموا الصلوة و لا تكونوا من المشركين
[Adhere to it], turning in repentance to Him, and fear Him and establish prayer and do not be of those who associate others with Allah
( logo! ) Allah Taalaa ki taraf rujoo ho ker uss say dartay raho aur namaz ko qaeem rakho aur mushrikeen mein say na ho jao.
۔ ( فطرت کی پیروی ) اس طرح ( کرو ) کہ تم نے اسی ( اللہ ) سے لو لگا رہی ہو اور اس سے ڈرتے رہو ، اور نماز قائم کرو اور ان لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہو جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے ( ف٦۷ ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں سے نہ ہو ،
﴿قائم ہو جاؤ اس بات پر﴾ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، 48 اور ڈر اس سے 49 اور نماز قائم کرو ، 50 اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے
اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقوٰی اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ
سورة الروم حاشیہ نمبر : 48 اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویہ اختیار کرکے اپنے مالک حقیقی سے انحراف کیا ہو ، یا جس نے بھی بندگی غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی رب سے بے وفائی کی ہو ، وہ اپنی اس روش سے باز آجائے اور اسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہوا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 49 یعنی تمہارے دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا ، یا اس کے بجائے کسی اور کی بندگی کی تو اس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہوگی ، اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 50 اللہ تعالی کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف ، دونوں قلب کے افعال ہیں ۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازما کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے ، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اس رجوع و تقوی کی کیفیت کو ایک عملی ممارست کے ذریعہ سے پے در پے نشو ونما نصیب ہوتا چلا جائے ۔ اسی لیے اللہ تعالی اس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فورا ہی اس جسمانی عمل ، یعنی اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے ۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے ، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی ۔ اس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ اس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے ، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کرتا جاتا ہے ، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوف خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے ۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو ، اس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے ۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائما کرنا ہوتا ہے ، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے ، آدمی کو بار بار دہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے ۔ مزید برآں کفار اور اہل ایمان دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت رب کی روش اختیار کرلی ہے ۔ اہل ایمان پر اس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی علامت فورا ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے با خبر کردے ۔ کفار پر اس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوند حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے ، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہوتی رہے ۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامت صلوۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامت صلوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کے اس دور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفار قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی 9 برس تک پستی رہی ۔ اس وقت دور دور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی ، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں ، یا اقامت صلوۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ نظام ربوبیت چلانا ہوتا ، جیسا کہ منکرین سنت کا دعوی ہے ، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد 9 سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟