Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
مِنَ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَعًا ‌ؕ كُلُّ حِزۡبٍۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُوۡنَ‏ ﴿32﴾
ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے ۔
من الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون
[Or] of those who have divided their religion and become sects, every faction rejoicing in what it has.
Unn logon mein say jinhon ney apnay deen ko tukray tukray ker diya aur khud bhi giroh giroh hogaye her giroh uss cheez per jo uss kay pass hai magan hai.
وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے ۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر مگن ہے ۔ ( ١٥ )
ان میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ( ف٦۸ ) اور ہوگئے گروہ گروہ ، ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ( ف٦۹ )
جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا دیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے ۔ 51
ان ( یہود و نصارٰی ) میں سے ( بھی نہ ہونا ) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے ، ہر گروہ اسی ( ٹکڑے ) پر اِتراتا ہے جو اس کے پاس ہے
سورة الروم حاشیہ نمبر : 51 یہ اشارہ ہے اس چیز کی طرف کہ نوع انسانی کا اصل دین وہی دین فطرت ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہوا توحید تک نہیں پہنچا ہے ، جیسا کہ قیاس و گمان سے ایک فلسفہ مذہب گھڑ لینے والے حضرات سمجھتے ہیں ، بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اس اصلی دین میں بگاڑ آنے سے رونما ہوئے ہیں ، اور یہ بگاڑ اس لیے آیا ہے کہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پر اپنی اپنی نو ایجاد باتوں کا اضافہ کر کے اپنے الگ دین بنا ڈالے ، اور ہر ایک اصل حقیقت کے بجائے اس اضافہ شدہ چیز کا گرویدہ ہوگیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہوکر ایک مستقل فرقہ بنا تھا ۔ اب جو شخص بھی ہدایت پاسکتا ہے وہ اسی طرح پاسکتا ہے کہ اس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جو دین حق کی بنیاد تھی ، اور بعد کے ان تمام اضافوں سے اور ان کے گرویدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑ کر بالکل الگ ہوجائے ۔ ان کے ساتھ ربط کا جو رشتہ بھی وہ لگائے رکھے گا وہی دین میں خلل کا موجب ہوگا ۔