Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ‌ؕ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ‌ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿38﴾
پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔
فات ذا القربى حقه و المسكين و ابن السبيل ذلك خير للذين يريدون وجه الله و اولىك هم المفلحون
So give the relative his right, as well as the needy and the traveler. That is best for those who desire the countenance of Allah , and it is they who will be the successful.
Pus qarabat daar ko miskeen ko musafir ko her aik ko uss ka haq dijiye yeh unn kay liye behtar hai jo Allah Taalaa ka mun dekhna chahatay hon aisay hi log nijat paney walay hain.
لہذا تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی ( ١٧ ) جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں ، ان کے لیے یہ بہتر ہے ، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں ۔
تو رشتہ دار کو اس کا حق دو ( ف۸۱ ) اور مسکین اور مسافر کو ( ف۸۲ ) یہ بہتر ہے ان کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں ( ف۸۳ ) اور انھیں کا کام بنا ،
پس ﴿اے مومن﴾ رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو ( اس کا حق ) 57 یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں ، اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ 58
پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو ( ان کا حق ) ، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں ، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں
سورة الروم حاشیہ نمبر : 57 یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار ، مسکین اور مسافر کو خیرات دے ۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے ، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے ۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پائے کہ یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے ، اور تو کوئی بڑٰ ہستی ہے دان کرنے والی ، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی ۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال ان دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں ۔ اس ارشاد الہی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغٰر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت ( Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے ، یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کردیے جائیں ، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے ، حتی کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کردے سکے ، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے میں کوئی جذبہ خیر سگالی پرورش کرسکے ۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظام تمدن و معیشت ، جسے آج کل ہمارے ملک میں قرآنی نظام ربوبیت کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جارہا ہے ، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشو و نما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعا بند ہوجاتا ہے ۔ قرآن کی اسکیم تو اسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل دولت کے مالک ہوں ، ان پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں ، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں ۔ اسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی ، رحم و شفقت ، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلی اوصاف پیدا ہوں ، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی ، احسان مندی ، اور جزاء الاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں ، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہوجائے جس میں بدی کا رکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوت جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو ، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 58 یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کردینے سے حاصل ہوجاتی ہے ، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ ان حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں ، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں ۔
صلہ رحمی کی تاکید قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو ۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسافر جس کا خرچ کم پڑگیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے ۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو ابن عباس مجاہد ضحاک قتادۃ عکرمہ محمد بن کعب اور شعبی سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں ۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے ۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہوگا ۔ اسی کی مشابہ آیت ( وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ Č۝۽ ) 74- المدثر:6 ) ہے یعنی زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے ۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کجھور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے ۔ اللہ ہی خالق ورازق ہے ۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا بےعلم بےکان بے آنکھ بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطافرماتا ہے ۔ مال ملکیت کمائی تجارت غرض بیشمار نعمتیں عطافرماتا ہے ۔ دوصحابیوں کا بیان ہے کہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا ۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو سرہلنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا ۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے ۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا ۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کررہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا ۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کرسکتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا ۔ اس کی مقدس منزہ معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ احد ہے صمد ہے فرد ہے ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کف کوئی نہیں ۔