Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ‌ۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ‏ ﴿39﴾
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے ( اور خوشنودی کے لئے ) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ۔
و ما اتيتم من ربا ليربوا في اموال الناس فلا يربوا عند الله و ما اتيتم من زكوة تريدون وجه الله فاولىك هم المضعفون
And whatever you give for interest to increase within the wealth of people will not increase with Allah . But what you give in zakah, desiring the countenance of Allah - those are the multipliers.
Tum jo sood per detay ho kay logon kay maal mein barhta rahey woh Allah Taalaa kay haan nahi barhta. Aur jo kuch sadqa zakat tum Allah Taalaa ka mun dekhney ( aur khushnoodi kay liye ) do to aisay log hi hain apna do chand kerney walay.
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے ۔ ( ١٨ ) اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتے ہو ، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو ( اپنے مال کو ) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں ۔ ( ١٩ )
اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی ( ف۸٤ ) اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے ( ف۸۵ ) تو انھیں کے دُونے ہیں ( ف۸٦ )
جو سود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے ، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا ، 59 اور جو زکوة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کر نے کے ارادے سے دیتے ہو ، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں ۔ 60
اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ ( تمہارا اثاثہ ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ ( و خیرات ) میں دیتے ہو ( فقط ) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ ( اپنا مال عند اﷲ ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں
سورة الروم حاشیہ نمبر : 59 قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی ۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سود یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھے گی ، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ سے ہوتی ہے ۔ آگے چل کر جب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ: يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ( البقرہ ، آیت 276 ) اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے ( بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران ، آیت 130 ۔ البقرہ ، آیات 275 تا 281 ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربو سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعا حرام کیا گیا ہے ، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا سے زیادہ واپس کرے گا ۔ یا معطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا ، یا اس کا خوشحال ہوجانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہوگا ۔ یہ ابن عباس ، مجاہد ، ضحاک ، قتادہ ، عکرمہ ، محمد بن کعب القرظی اور شعبی ( رضی اللہ عنہم ) کا قول ہے ۔ اور غالبا یہ تفسیر ان حضرات نے اس بنا پر فرمائی ہے کہ آیت میں اس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہوگی ، حالانکہ اگر معاملہ اس سود کا ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں اس سے مراد وہی معروف ربو ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے ۔ یہ رائے حضرت حسن بصری اور سدی کی ہے اور علامہ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں ربو کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے ۔ ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے ، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر تفسیر اول کے حق میں بیان ہوئی ہے ۔ سورہ روم کا نزول جس زمانے میں ہوا ہے اس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا ۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہوا ہے ۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا ہے ، اس کے لیے وہ پہلے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کردیتا ہے ۔ شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے ، ( النحل ، آیت 67 ) پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے ( البقرہ 219 ) پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ ( النساء ، 43 ) پھر اس کی قطعی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا ۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو ، بلکہ حقیقی افزائش زکوۃ سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا ( آل عمران ، آیت 130 ) اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا ۔ ( البقرہ ، آیت 5 ) سورة الروم حاشیہ نمبر : 60 اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبہ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہی کے ساتھ کوئی شخص راہ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالی اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالی اس کو بڑھا کر احد پہاڑ کے برابر کردیتا ہے ۔