Surah

Information

Surah # 30 | Verses: 60 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 84 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 17, from Madina
وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۙ مَا لَبِثُوۡا غَيۡرَ سَاعَةٍ ‌ؕ كَذٰلِكَ كَانُوۡا يُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿55﴾
اور جس دن قیامت برپا ہو جائے گی گناہگار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ ( دنیا میں ) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے اسی طرح یہ بہکے ہوئے ہی رہے ۔
و يوم تقوم الساعة يقسم المجرمون ما لبثوا غير ساعة كذلك كانوا يؤفكون
And the Day the Hour appears the criminals will swear they had remained but an hour. Thus they were deluded.
Aur jiss din qayamat barpa ho jayegi gunehgaar log qasmen khayen gay kay ( duniya mein ) aik ghari kay siwa nahi theray issi tarah yeh behkay huyey hi rahey.
اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن مجرم لوگ قسم کھا لیں گے کہ وہ ( برزخ میں ) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے ۔ اسی طرح ( دنیا میں بھی ) وہ اوندھے چلا کرتے تھے ۔
اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم قسم کھائیں گے کہ نہ رہے تھے مگر ایک گھڑی ( ف۱۲۰ ) وہ ایسے ہی اوندھے جاتے تھے ( ف۱۲۱ )
اور جب وہ ساعت برپا 80 ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں ، 81 اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے ۔ 82
اور جس دن قیامت برپا ہوگی مُجرم لوگ قَسمیں کھائیں گے کہ وہ ( دنیا میں ) ایک گھڑی کے سوا ٹھہرے ہی نہیں تھے ، اسی طرح وہ ( دنیا میں بھی حق سے ) پھرے رہتے تھے
سورة الروم حاشیہ نمبر : 80 یعنی قیامت جس کے آنے کی خبر دی جارہی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 81 یعنی مرنے کے وقت سے قیامت کی اس گھڑی تک ۔ ان دونوں ساعتوں کے درمیان چاہے دس بیس ہزار برس ہی گزر چکے ہوں ، مگر وہ محسوس کریں گے کہ چند گھنٹے پہلے ہم سوئے تھے اور اب اچانک ایک حادثہ نے ہمیں جگا اٹھایا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 82 یعنی ایسے ہی غلط اندازے یہ لوگ دنیا میں بھی لگاتے تھے ۔ وہاں بھی یہ حقیقت کے اداراک سے محروم تھے اسی وجہ سے یہ حکم لگایا کرتے تھے کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ، مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ، اور کسی خدا کے سامنے حاضر ہوکر ہمیں حساب نہیں دینا ۔
واپسی ناممکن ہوگی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں ۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کیساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھاکر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے ۔ اس سے ان کامقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی ۔ ہمیں معذور سمجھا جائے ۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے ۔ فرماتا ہے کہ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو ۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو ۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا ۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ 24؀ ) 41- فصلت:24 ) یعنی اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے ۔