Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ يُوۡقِنُوۡنَؕ‏ ﴿4﴾
جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر ( کامل ) یقین رکھتے ہیں ۔
الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و هم بالاخرة هم يوقنون
Who establish prayer and give zakah, and they, of the Hereafter, are certain [in faith].
Jo log namaz qaeem kertay hain aur zakat ada kertay hain aur aakhirat per ( kamil ) yaqeen rakhtay hain.
وہ نیک لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں ، اور زکوٰۃ اداکرتے ہیں ، اورآخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں ۔
وہ جو نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں اور آخرت پر یقین لائیں ،
جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں3 ۔
جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :3 یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو نیکو کار کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں ۔ دراصل پہلے نیکو کار کا عام لفظ استعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ ان تمام برائیوں سے رکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے ، اور ان سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے ۔ پھر ان نیکو کار لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار ان ہی تین چیزوں پر ہے ۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے ۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں ، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے ، متاع دنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب ابھرتی ہے ۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ، جس سے ان کے اندر ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ابھرتا ہے ، جس کی بدولت وہ اس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھوٹا پھر رہا ہو ، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں ، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے ۔ ان تینوں خصوصیات کی وجہ یہ نیکوکار اس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات ان کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے ۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو ان کے نظام فکر و اخلاق سے ابھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں ۔