Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا‌ وَاَ لۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ دَآ بَّةٍ‌ ؕ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿10﴾
اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے ۔
خلق السموت بغير عمد ترونها و القى في الارض رواسي ان تميد بكم و بث فيها من كل دابة و انزلنا من السماء ماء فانبتنا فيها من كل زوج كريم
He created the heavens without pillars that you see and has cast into the earth firmly set mountains, lest it should shift with you, and dispersed therein from every creature. And We sent down rain from the sky and made grow therein [plants] of every noble kind.
Ussi ney aasmano ko baghair sutoon kay peda kiya hai tum enhen dekh rahey ho aur iss ney zamin mein paharon ko daal diya takay woh tumhen junbish na dey sakay aur her tarah kay jandaar zamin mein phela diyey. Aur hum ney aasman say pani barsa ker zamin mein her qisam kay nafees joray uga diyey.
اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمہیں نظر آسکیں ۔ ( ٢ ) اور زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے ہیں ، تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگائے نہیں ، ( ٣ ) اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دییے ہیں ۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس ( زمین ) میں ہر قابل قدر قسم کی نباتات اگائیں ۔
اس نے آسمان بنائے بے ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں ( ف٦ ) اور زمین میں ڈالے لنگر ( ف۷ ) کہ تمہیں لے کر نہ کانپے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے ، اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ( ف۸ ) تو زمین میں ہر نفیس جوڑا اگایا ( ف۹ )
اس 12 نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں 13 ۔ اس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے 14 ۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں ۔
اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا ( جیسا کہ ) تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں اونچے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمہیں لے کر ( دورانِ گردش ) نہ کانپے اور اُس نے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ و مفید نباتات اگا دیں
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :12 اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدعا ، یعنی تردید شرک اور دعوت توحید پر کلام شروع ہوتا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :13 اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ کہ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے ، اور بہت سے دوسرے مفسرین پہلا مطلب لیتے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے علوم طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام عالم افلاک میں یہ بے حد و حساب عظیم الشان تارے اور سیارے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو ۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں ۔ صرف قانون جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :14 تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۳۰ ، حاشیہ نمبر ۱۲ ۔
پہاڑوں کی میخیں اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ زمین وآسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے ۔ آسمان کو اس نے بےستوں اونچا رکھا ہے ۔ واقع ہی میں کوئی ستوں نہیں ۔ گو مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ ستوں ہمیں نظر نہیں آتے ۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورۃ رعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لئے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ زمین کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لئے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے ۔ اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی حصر نہیں کرسکا ۔ اپنا خالق اور اخلق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بےضرر ۔ نفع میں بہت بہتر ۔ شعبی کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے جنتی کریم ہیں اور دوزخی لئیم ہیں ۔ اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے؟ جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت ناانصافی ہے فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا بہرا بےعقل بےعلم بےسمجھ بیوقوف اور کون ہوگا ؟