Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
وَاقۡصِدۡ فِىۡ مَشۡيِكَ وَاغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِكَ‌ؕ اِنَّ اَنۡكَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِيۡرِ‏ ﴿19﴾
اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے ۔
و اقصد في مشيك و اغضض من صوتك ان انكر الاصوات لصوت الحمير
And be moderate in your pace and lower your voice; indeed, the most disagreeable of sounds is the voice of donkeys."
Apni raftar mein miyana rawi ikhtiyar ker aur apni awaz past ker yaqeenan awazon mein sab say badtar awaz gadhon ki awaz hai.
اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو ( ١١ ) اور اپنی آواز آہستہ رکھو ( ١٢ ) بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے ۔
اور میانہ چال چل ( ف۳۳ ) اور اپنی آواز کچھ پست کر ( ف۳٤ ) بیشک سب آوازوں میں بری آواز ، آواز گدھے کی ( ف۳۵ )
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر 33 ، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے 23 ۔ ع2
اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر ، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر ، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :33 بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل ، بلکہ میانہ روی اختیار کر لیکن سیاق کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے ۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے ۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ روی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے ۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے ۔ دولت ، اقتدار ، حسن ، علم ، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے ۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے ۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے ۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کوئی اینٹھ اور اکڑ ہو ، نہ مریل پن ، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار ۔ صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا سر اٹھا کر چل ، اسلام مریض نہیں ہے ۔ ایک اور شخص کو انہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ظالم ، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے ۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک دینداری کا منشا ہرگز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے ۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی ۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہ کو پیش آیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں ۔ پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں ( یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے ) ۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا عمر سید القراء تھے ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے ، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل ، حاشیہ ٤۳ ۔ تفسیر سورہ الفرقان ، حاشیہ ۷۹ ) سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :34 اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے ، بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کردیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے ۔ لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی ونرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو ۔ مثلا قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب ہوں تو آہستہ بولیں گے ۔ دور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہوگا ۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازما ہوتا ہے ۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے اور اظہار خوشنودی کا لجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہی ہونا چاہیے ۔ یہ چیز کسی بھی درجہ میں قابل اعتراض نہیں ہے ۔ نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے ۔ قابل اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل ومرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے ۔