Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَيُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ كُلٌّ يَّجۡرِىۡۤ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿29﴾
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے اللہ تعالٰی ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے ۔
الم تر ان الله يولج اليل في النهار و يولج النهار في اليل و سخر الشمس و القمر كل يجري الى اجل مسمى و ان الله بما تعملون خبير
Do you not see that Allah causes the night to enter the day and causes the day to enter the night and has subjected the sun and the moon, each running [its course] for a specified term, and that Allah , with whatever you do, is Acquainted?
Kiya aap nahi dektay kay Allah Taalaa raat ko din mein aur din ko raat mein khapa deta hai sooraj chand ko ussi ney farma bardar ker rakha hai kay her aik muqarrara waqt tak chalta rahey Allah Taalaa her uss cheez say jo tum kertay ho khabardaar hai.
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے ، اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک کسی متعین میعاد تک رواں دواں ہے ، اور ( کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ) کہ اللہ پوری طرح باخبر ہے کہ تم کیا کرتے ہو؟
اے سننے والے کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ رات لاتا ہے دن کے حصے میں اور دن کرتا ہے رات کے حصے میں ( ف۵۱ ) اور اس نے سورج اور چاند کام میں لگائے ( ف۵۲ ) ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے ( ف۵۳ ) اور یہ کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ،
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے 50 ، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ، اور ( کیا تم نہیں جانتے ) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ۔
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور ( اسی نے ) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے ، ہر کوئی ایک مقرّر میعاد تک چل رہا ہے ، اور یہ کہ اﷲ ان ( تمام ) کاموں سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :50 یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں ۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالم بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انہیں دیوتا مان رہے ہیں ۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سر مو ہٹ نہیں سکتے ۔ سورہ لقمن حاشیہ: 51 یعنی ہر چیز کی جو مدت عمر مقرر کردی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے ۔ سورج ہو یا چاند ، یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سیارا ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی ۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی ، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی ، اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہوسکتی ہیں ۔
اس کے سامنے پر چیز حقیر وپست ہے رات کو کچھ گھٹا کر دن کو کچھ بڑھانے والا اور دن کو کچھ گھٹاکر رات کو کچھ بڑھانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جاڑوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی اسی کی قدرت کا ظہور ہے سورج چاند اسی کے تحت فرمان ہیں ۔ جو جگہ مقرر ہے وہیں چلتے ہیں قیامت تک برابر اسی چال چلتے رہیں گے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا یہ جاکر اللہ کے عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑتا ہے اور اپنے رب سے اجازت چاہتا ہے قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ سورج بمنزلہ ساقیہ کے ہے دن کو اپنے دوران میں جاری رہتا ہے غروب ہو کر رات کو پھر زمین کے نیچے گردش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے ۔ اسی طرح چاند بھی ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے جیسے فرمان ہے کیا تو نہیں جانتا کہ زمین آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کے علم میں ہے سب کا خالق سب کا عالم اللہ ہی ہے جیسے ارشاد ہے اللہ نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے مثال زمینیں بنائیں ۔ یہ نشانیاں پروردگار عالم اس لئے ظاہر فرماتا ہے کہ تم ان سے اللہ کے حق وجود پر ایمان لاؤ اور اسکے سوا سب کو باطل مانو ۔ وہ سب سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے سب کے سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں ۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے غلام ہیں ۔ کسی کو ایک ذرے کے حرکت میں لانے کی قدرت نہیں ۔ گو ساری مخلوق مل کر ارادہ کرلے کہ ایک مکھی پیدا کریں سب عاجز آجائیں گے اور ہرگز اتنی قدرت بھی نہ پائیں گے ۔ وہ سب سے بلند ہے جس پر کوئی چیز نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ہے جس کے سامنے کسی کو کوئی بڑائی نہیں ۔ ہر چیز اس کے سامنے حقیر اور پست ہے ۔