Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
يُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الۡاَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗۤ اَلۡفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ‏ ﴿5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ( ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر ( وہ کام ) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ۔
يدبر الامر من السماء الى الارض ثم يعرج اليه في يوم كان مقداره الف سنة مما تعدون
He arranges [each] matter from the heaven to the earth; then it will ascend to Him in a Day, the extent of which is a thousand years of those which you count.
Woh aasman say ley ker zamin tak ( her ) kaam ki tadbeer kerta hai phir ( woh kaam ) aik aisay din mein uss ki taraf charh jata hai jiss ka andaza tumhari ginti kay aik hazar saal kay barbar hai.
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کا انتظام خود کرتا ہے ، پھر وہ کام ایک ایسے دن میں اس کے پاس اوپر پہنچ جاتا ہے جس کی مقدار گنتی کے حساب سے ایک ہزار سال ہوتی ہے ۔ ( ٤ )
کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک ( ف۸ ) پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا ( ف۹ ) اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں ( ف۱۰ )
وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے 9
وہ آسمان سے زمین تک ( نظام اقتدار ) کی تدبیر فرماتا ہے پھر وہ امر اس کی طرف ایک دن میں چڑھتا ہے ( اور چڑھے گا ) جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے اس ( حساب ) سے جو تم شمار کرتے ہو
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :8 یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو ۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے ، مخلوق ہے ۔ اور اللہ اس دنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے ، بلکہ اپنی اس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرماروا بھی وہ آپ ہی ہے ۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟ اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :9 یعنی تمہارے نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفار عرب کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ ان کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے : وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o ( آیت ٤۷ ) یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے ۔ دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے : سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ( oلا ) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ ( oلا ) مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍO فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلاً o ا ِنَّھُمْ یَرَوْنَہ بَعِیْدًا ( oلا ) وَّنَرٰہ قَرِیْباًoط ( المعارج ۔ آیات ۱ ۔ ۷ ) پوچھنے والا پوچھتا ہے اس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اس خدا کی طرف سے جو چڑھتے درجوں والا ہے ( یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا ) ۔ چڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو ۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے ۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا ، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے برے نتائج سامنے آجائیں ۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں ، صدیاں بھی کوئی بڑی مدت نہیں ہیں ۔