Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَيۡنَا كُلَّ نَفۡسٍ هُدٰٮهَا وَلٰـكِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّىۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿13﴾
اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے ، لیکن میری یہ بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا ۔
و لو شنا لاتينا كل نفس هدىها و لكن حق القول مني لاملن جهنم من الجنة و الناس اجمعين
And if we had willed, We could have given every soul its guidance, but the word from Me will come into effect [that] "I will surely fill Hell with jinn and people all together.
Agar hum chahtay to her shaks ko hidayat naseeb farma detay lekin meri yeh baat bilkul haq ho chuki hai kay mein zaroor zaroor jahannum ko insano aur jinno say pur kerdoon ga.
اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ( پہلے ہی ) اس کی ہدایت دے دیتے ، لیکن وہ بات جو میری طرف سے کہی گئی تھی ، طے ہوچکی ہے کہ : میں جہنم کو جنات اور انسانوں سب سے ضرور بھر دوں گا ۔ ( ٥ )
اور اگر ہم چاہتے ہر جان کو اس کی ہدایت فرماتے ( ف۲۷ ) مگر میری بات قرار پاچکی کہ ضرور جہنم کو بھردوں گا ان جِنوں اور آدمیوں سب سے ( ف۲۸ )
( جواب میں ارشاد ہوگا ) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے 23 مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا 24
اور اگر ہم چاہتے تو ہم ہر نفس کو اس کی ہدایت ( اَز خود ہی ) عطا کر دیتے لیکن میری طرف سے ( یہ ) فرمان ثابت ہو چکا ہے کہ میں ضرور سب ( مُنکر ) جنّات اور انسانوں سے دوزخ کو بھر دوں گا
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 یعنی اس طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اس کو پہچانتے ہو یا نہیں ، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہو یا نہیں ، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو ۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو ۔ اب دوبارہ اسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا ۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا ۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سرے سے تمہارا اسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا ، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۱٦۰ ۔ ۱٦۱ ۔ ۵٦۵ ۔ ٦۲۵ ۔ ۵۳۲ ۔ ٦۰۳ ۔ ٦۰٤ ۔ جلد دوّم ص ، ۲۷٦ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰ ) سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 اشارہ ہے اس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا ۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اس وقت کا پورا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے ۔