Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
اَفَمَنۡ كَانَ مُؤۡمِنًا كَمَنۡ كَانَ فَاسِقًا‌ ؕ لَا يَسۡتَوٗنَؔ‏ ﴿18﴾
کیا وہ جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے ۔
افمن كان مؤمنا كمن كان فاسقا لا يستون
Then is one who was a believer like one who was defiantly disobedient? They are not equal.
Kiya woh jo momin ho misil uss kay hai jo fasiq ho? Yeh barbar nahi ho saktay.
بھلا بتاؤ کہ جو شخص مومن ہو ، کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے جو فاسق ہے؟ ( ظاہر ہے کہ ) وہ برابر نہیں ہوسکتے ۔
تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو بےحکم ہے ( ف۳٦ ) یہ برابر نہیں ،
بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ 30 یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے 31
بھلا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہو اس کی مثل ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو ، ( نہیں ) یہ ( دونوں ) برابر نہیں ہو سکتے
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :30 یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ مومن سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے ۔ اس کے برعکس فاسق وہ ہے جو فسق ( خروج از طاعت ، یا با الفاظ دیگر بغاوت ، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ ) کا رویہ اختیار کرے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :31 یعنی نہ دنیا میں ان کا طرز فکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے ۔
نیک وبد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ کے عدل وکرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکاربرابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ 21؀ۧ ) 45- الجاثية:21 ) یعنی کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کررہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کردیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے ۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀ ) 38-ص:28 ) یعنی ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کردیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کردیں؟ اور آیت ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20؀ ) 59- الحشر:20 ) دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں ۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہوگی ۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہوگی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ 22؀ۧ ) 22- الحج:22 ) یعنی جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے ۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے ۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا ۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کرجائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بےعزت بےوقعت اور بڑے گنہگار ہیں ۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا ۔ جس نے بےوجہ کوئی جھنڈا باندھا ، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی ، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا ۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلا لیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم )