Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَلَا تَكُنۡ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡ لِّقَآٮِٕهٖ‌ وَجَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَۚ‏ ﴿23﴾
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہیے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا ۔
و لقد اتينا موسى الكتب فلا تكن في مرية من لقاىه و جعلنه هدى لبني اسراءيل
And We certainly gave Moses the Scripture, so do not be in doubt over his meeting. And we made the Torah guidance for the Children of Israel.
Be-shak hum ney musa ko kitab di pus aap ko hergiz uss ki mulaqat mein shak na kerna chahyey aur hum ney ussay bani israeel ki hidayat ka zariya banaya.
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی ، لہذا ( اے پیغمبر ) تم اس کے ملنے کے بارے میں کسی شک میں نہ رہو ۔ ( ١١ ) اور ہم نے اس کتاب کو بنو اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب ( ف٤۲ ) عطا فرمائی تو تم اس کے ملنے میں شک نہ کرو ( ف٤۳ ) اور ہم نے اسے ( ف٤٤ ) بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا ،
اس سے پہلے ہم موسی ( علیہ السلام ) کو کتاب دے چکے ہیں ، لہذا اسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے 35 اس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا 36 ،
اور بیشک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو کتاب ( تورات ) عطا فرمائی تو آپ ان کی ملاقات کی نسبت شک میں نہ رہیں ( وہ ملاقات آپ سے عنقریب شبِ معراج ہونے والی ہے ) اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :35 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے ۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ ( آیات نمبر ۲ اور ۳ ) میں بیان ہوا تھا ۔ کفار مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے ۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا ۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتاب الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے ۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو ۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن میں سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کو دی گئی تھی ۔ لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :36 یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پسی ہوئی قوم ہدایت پاکر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی ۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہل عرب سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھیجی گئی ہے ، اسی طرح تمہاری ہدایت کے لئے یہ کتاب بھیجی گئ ہے ۔
شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک وشبہ میں نہ رہ ۔ قتادۃ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں ۔ حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں ۔ اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے ۔ میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر ۔ آپ نے یقینا حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی ۔ حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنادیا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت ( وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا Ą۝ۭ ) 17- الإسراء:2 ) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنادیا کہ تم میرے سواکسی کو کار ساز نہ سمجھو ۔ پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنادیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کردئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا ۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے حضرت سفیان فرماتے ہیں یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دین کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے ۔ حضرت سفیان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنادیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنادیا ۔ چنانچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی ۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ۔