Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
اَوَلَمۡ يَهۡدِ لَهُمۡ كَمۡ اَهۡلَكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ يَمۡشُوۡنَ فِىۡ مَسٰكِنِهِمۡ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ ؕ اَفَلَا يَسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿26﴾
کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کےمکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں اس میں تو ( بڑی ) بڑی نشانیاں ہیں ، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟
او لم يهد لهم كم اهلكنا من قبلهم من القرون يمشون في مسكنهم ان في ذلك لايت افلا يسمعون
Has it not become clear to them how many generations We destroyed before them, [as] they walk among their dwellings? Indeed in that are signs; then do they not hear?
Kiya iss baat ney bhi enhen hidayat nahi di kay hum ney inn say pehlay boht si ummaton ko halak ker diya jin kay makano mein yeh chal phir rahey hain. Iss mein to ( bari ) bari nishaniyan hain. Kiya phir bhi yeh nahi sunntay?
اور کیا ان ( کافروں ) کو اس بات سے کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کے گھروں میں یہ خود چلتے پھرتے ہیں؟ ( ١٢ ) یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔ تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں؟
اور کیا انھیں ( ف۵۰ ) اس پر ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں ( قومیں ) ( ف۵۱ ) ہلاک کردیں کہ آج یہ ان کے گھروں میں چل پھر رہے ہیں ( ف۵۲ ) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں تو کیا سنتے نہیں ( ف۵۳ )
اور کیا ان لوگوں کو ( ان تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟39 اس میں بڑی نشانیاں ہیں ، کیا یہ سنتے نہیں ہیں ؟
اور کیا انہیں ( اس امر سے ) ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم نے اِن سے پہلے کتنی ہی امّتوں کو ہلاک کر ڈالا تھا جن کی رہائش گاہوں میں ( اب ) یہ لوگ چَلتے پِھرتے ہیں ۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ، تو کیا وہ سنتے نہیں ہیں
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :39 یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا ۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے ۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے ۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گئے ۔
دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ کا خط کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ وبالا کردیا ہے ۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے ۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بےپرواہی کی ۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں ۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے ۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں ۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے ناآشنا ہیں ۔ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف وکرم کو احسان وانعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے ۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے ۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے ۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے ۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہوگئے ہوں زمین یبوست ( خشکی ) کے مارے پھٹنے لگی ہو ۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے ۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتاجاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے ۔ اس حکیم وکریم منان ورحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں ۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا ۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلاکر رضامند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اسکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں ۔ سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کرسکتے ۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا ۔ لوگ تنگ آکر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں ۔ یہاں کی بود وباش ترک کردیں اب فاتح مصر کو خیال گذرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں ۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف ۔ بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کردے ۔ یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا ۔ ابھی ایک رات بھی گذرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی ۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہوگیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا ۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا ۔ ( کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی ) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ 24؀ۙ ) 80-عبس:24 ) یعنی انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جرز وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں ۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو ۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ 33؀ ) 36-يس:33 ) ان کے لئے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کردیتے ہیں ۔