Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْاَحْزَاب نام : آیت ۲۰ کے فقرہ یَحْسَبُونَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْھَبُوْا سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : اس سورۃ کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں ۔ ایک غزوۂ احزاب جو شوال ۵ ھجری میں پیش آیا ۔ دوسرے غزوۂ بنی قُرَیْظَہ جو ذی القعدہ ۵ ھجری میں پیش آیا ۔ تیسرے حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جو اسی سال ذی القعدہ میں ہوا ۔ ان تاریخی واقعات سے سورۃ کا زمانۂ نزول ٹھیک متعین ہو جاتا ہے ۔ تاریخی پس منظر : جنگ اُحُد ( شوال ۳ ھ ) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے تیر اندازوں کی غلطی سے لشکر اسلام کو جو شکست نصیب ہو گئی تھی اس کی وجہ سے مشرکین عرب ، یہود اور منافقین کی ہمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور نہیں امید بندھ چلی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ان بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے جو اُحد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آئے ۔ جنگ اُحد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ نجد کے قبیلۂ بنی اَسَدْ نے مدینہ طیبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی روک تھام کے لیے سَرِیَّۂابو سَلَمہ ( اصطلاح میں سَرِیہ اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک نہ ہوتے تھے ۔ اور غزْوہ اس جنگ یا مہم کو کہا جاتا ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود قیادت فرماتے تھے ) بھیجنا پڑا ۔ پھر صفر ٤ھ میں قبائل عَضَل اور قارَہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چند آدمی مانگے تاکہ وہ ان علاقہ میں جا کر لوگوں کو دین اسلام کی تعلیم دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ اصحاب کو ان کے ساتھ کر دیا ۔ مگر رَجیع ( جدہ اور رابِغ کے درمیان ) پہنچ کر وہ لوگ قبیلۂ ھُذَیل کے کفار کو ان بے بس مبلغین پر چڑھا لائے ، ان میں سے چار کو قتل کر دیا ، اور دو صاحبوں ( حضرت خُبَیب بن عَدِی اور حضرت زید بن الدَّثِنَّہ ) کو لے جا کر مکۂ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ پھر اسی ماہ صفر میں بنی عامر کے ایک سردار کی درخواست پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور وفد جو چالیس ( یا بقول بعض ۷۰ ) انصاری نوجوانوں پر مشتمل تھا ، نجد کی طرف روانہ کیا ۔ مگر ان کے ساتھ بھی غداری کی گئی اور بنی سُلیم کے قبائل عُصَیَّہ اور رِعْل اور ذکْوان نے بِئر مَعُونہ کے مقام پر اچانک نرغہ کر کے ان سب کو قتل کر دیا ۔ اسی دوران میں مدینے کا یہودی قبیلہ بنی النَّضِیر دلیر ہو کر مسلسل بد عہدیاں کرتا رہا ، یہاں تک کہ ربیع الاوّل ٤ ھ میں اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دینے کی سازش تک کر ڈالی ۔ پھر جمادی الاولیٰ ٤ھ میں بنی غَطَفان کے دو قبیلوں ، بنو ثَعْلَبَہ اور بنو مُحَارِب نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں کیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ان کی روک تھام کے لیے جانا پڑا ۔ اس طرح جنگ اُحْد کی شکست سے جو ہوا اکھڑی تھی وہ مسلسل سات آٹھ مہینے تک اپنا رنگ دکھاتی رہی ۔ لیکن وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم و تدبر اور صحابۂ کرام کا جذبۂ فدا کاری تھا جس نے تھوڑی مدت کے اندر ہی حالات کا رخ بدل کر رکھ دیا ۔ عربوں کے معاشی مقاطعہ نے اہل مدینہ کے لیے جینا دشوار کر رکھا تھا ۔ گرد و پیش کے تمام مشرک قبائل چیرہ دست ہو رہے تھے ۔ خود مدینہ کے اندر یہود اور منافقین مار آستین بنے ہوئے تھے ۔ مگر ان مٹھی بھر مومنین صادقین نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قیادت میں پے درپے ایسے اقدامات کیے جن سے عرب میں اسلام کا رعب صرف بحال ہی نہیں ہو گیا ، بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ۔ جنگِ احزاب سے پہلے کے غَزوات: ان میں سے اولین اقدام وہ تھا جو جنگ اُحُد کے فوراً ہی بعد کیا گیا ۔ جنگ کے ٹھیک دوسرے روز جبکہ بکثرت مسلمان زخمی تھے اور بہت سے عزیز ترین اقارب کی شہادت پر کہرام برپا تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی زخمی اور حضرت حمزہ کی شہادت پر دلفگار تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے فدائیوں کو پکارا کہ لشکر کفار کے تعاقب میں چلنا ہے تاکہ وہ کہیں راستے سے پلٹ کر پھر مدینے پر حملہ آور نہ ہو جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازہ بالکل صحیح تھا کہ کفار قریش ہاتھ آئی ہوئی فتح کا کوئی فائدہ اٹھائے بغیر واپس تو چلے گئے ہیں ، لیکن راستے میں جب کسی جگہ ٹھہریں گے تو اپنی اس حماقت پر نادم ہوں گے اور دوبارہ مدینے پر چڑھ آئیں گے ۔ اس بناء پر آپ نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور فوراً ۳٦۰ جاں نثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ مکہ کے راستے میں جب حَمْرأ الاسد پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین روز تک پڑاؤ کیا تو ایک ہمدرد غیر مسلم کے ذریعہ سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ ابو سُفْیان اپنے ۲۹۷۸ آدمیوں کے ساتھ مدینے سے ۳٦ میل دور الرَّوحأ کے مقام پر ٹھہرا ہوا تھا اور یہ لوگ فی الواقع اپنی غلطی کو محسوس کر کے پھر پلٹ آنا چاہتے تھے ، لیکن یہ سن کر ان کی ہمت ٹوٹ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر لیے ہوئے ان کے تعاقب میں چلے آ رہے ہیں ۔ اس کارروائی کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ قریش کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہو گئے ، بلکہ گرد و پیش کے دشمنوں کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کی قیادت ایک انتہائی بیدار مغز اور اولوالعزم ہستی کر رہی ہے اور مسلمان اس کے اشارے پر کٹ مرنے کے لیے ہر وقت تیا رہیں ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، صفحات ۲۲۹ ۔ ۲۳۰ ۔ ۳۰۳ ) پھر جوں ہی بنی اسد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاریاں شروع کیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخبروں نے بروقت آپ کو ان کے ارادوں سے با خبر کر دیا ۔ قبل اس کے کہ وہ چڑھ آتے ، آپ نے حضرت ابو سَلَمہ ( اُمّ المومنین حضرت اُم سلَمہ کے پہلے شوہر ) کی قیادت میں ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا ۔ یہ فوج اچانک ان کے سر پر پہنچ گئی ۔ بدحواسی کے عالم میں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ان کا سارا مال اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا ۔ اس کے بعد بنی النَّضیر کی باری آئی ۔ جس روز انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی اور اس کا راز فاش ہوا اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نوٹس دے دیا کہ دس دن کے اندر مدینے سے نکل جاؤ ، اس کے بعد تم میں سے جو یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا ۔ منافقین مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبیّ نے ان کو تڑی دی کہ ڈٹ جاؤ اور مدینہ چھوڑنے سے انکار کر دو ، میں دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کروں گا ، بنی قُرَیظہ تمہاری مدد کریں گے اور نجد سے بنی غَطَفان بھی تمہاری مدد کے لیے آئیں گے ۔ ان باتوں میں آ کر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ ہم اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے ، آپ سے جو کچھ ہوسکے کر لیجئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوٹس کی میعاد ختم ہوتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا اور ان کے حامیوں میں سے کسی کی یہ ہمت نہ پڑی کہ مدد کو آتا ۔ آخر کار انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ ان میں سے ہر تین آدمی ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں اور باقی سب کچھ مدینہ ہی میں چھوڑ جائیں گے ۔ اس طرح مضافات مدینہ کا وہ پورا محلہ جس میں بنی نَضیر رہتے تھے ، ان کے باغات اور گڑھیوں اور سر و سامان سمیت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا اور اس بد عہد قبیلے کے لو گ خیبر ، وادی القُریٰ اور شام میں تتّر بتّر ہو گئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی غَطَفان کی طرف توجہ کی جو مدینے پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہے تھے ۔ آپ چار سو کا لشکر لے کر نکلے اور ذات الرِّقاع کے مقام پر اس کو جالیا ۔ اس اچانک حملے نے ان کے حواس باختہ کر دیے اور کسی جنگ کے بغیر وہ اپنے گھر بار اور مال اسباب چھوڑ کر پہاڑوں میں منتشر ہو گئے ۔ اس کے بعد شعبان ٤ ہجری میں آپ ابو سفیان کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے نکلے جو اس نے احد سے پلٹتے ہوئے دیا تھا ۔ خاتمۂ جنگ پر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی طرف رخ کر کے اعلان کیا تھا کہ ان موعدکم بدر للعام المقبل ( آئندہ سال بدر کے مقام پر ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہو گا ) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ایک صحابی کے ذریعہ سے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ نعم ، ھی بیننا وبینک موعد ( ٹھیک ہے ، یہ بات ہمارے اور تیرے درمیان طے ہو گئی ) ۔ اس قرارداد کے مطابق طے شدہ وقت پر آپ ۱۵ سو صحابیوں کو لے کر بدر کے مقام پر پہنچ گئے ۔ ادھر سے ابو سفیان دو ہزار کا لشکر لے کر چلا مگر مُرَّ الظَّہران ( موجودہ وادی فاطمہ ) سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کر سکا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں آٹھ دن اس کا انتظار کیا اور اس دوران میں مسلمان تجارت کر کے ایک درہم کے دو درہم کماتے رہے ۔ اس واقعہ سے وہ دھاک جو اُحُد میں اکھڑی تھی پہلے سے زیادہ جم گئی ۔ اس نے پورے عرب پر یہ بات کھول دی کہ اب تنہا قریش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ( اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، ص ۳۰٤ ) اس دھاک میں ایک اور واقعہ نے مزید اضافہ کیا ۔ عرب اور شام کی سرحد پر دومتہ الجَنْدَل ( موجودہ الجَوف ) ایک اہم مقام تھا جہاں سے عراق اور مصر و شام کے درمیان عرب کے تجارتی قافلے گزرتے تھے ۔ اس مقام کے لوگ قافلوں کو تنگ کرتے اور اکثر لوٹ لیتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول ۵ ھ میں ایک ہزار کا لشکر لے کر ان کی تادیب کے لیے خود تشریف لے گئے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کی ہمت نہ کر سکے اور بستی چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ اس سے پورے شمالی عرب پر اسلام کی ہیبت بیٹھ گئی اور قبائل نے یہ سمجھ لیا کہ مدینے میں جو زبردست طاقت پیدا ہوئی ہے اس کا مقابلہ اب ایک دو قبیلوں کے بس کا کام نہیں ہے ۔ غزوۂ احزاب : یہ حالات تھے جن میں غزوۂ احزاب پیش آیا ، یہ غزوہ دراصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترک حملہ تھا جو مدینے کی اس طاقت کو کچل دینے کے لئے کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اس کے تحریک بنی النَّضِیر کے ان لیڈروں نے کے تھی جو جلا وطن ہو کر خیبر میں مقیم ہو گئے تھے ۔ انہوں نے دورہ کر کے قریش اور غَطفان اور ہُذَیل اور دوسرے بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب مل کر بہت بڑی جمیعت کے ساتھ مدینے پر ٹوٹ پڑیں ۔ چنانچہ ان کی کوششوں سے شوال ۵ ھ میں قبائل عرب کی اتنی بڑی جمیعت اس چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہو گئی جو اس سے پہلے عرب میں کبھی جمع نہ ہوئی تھی ۔ اس میں شمال کی طرف بنی النَّضِیر اور قَیْنقُاع کے وہ یہودی آئے جو مدینے سے جلا وطن ہو کر خیبر اور وادی القُریٰ میں آباد ہوئے تھے ۔ مشرق کی طرف سے غَطَفان کے قبائل ( بنو سُلَیم ، فَزارہ ، مُرَّہ ، اَشجع ، سَعد اور اَسَد وغیرہ ) نے پیش قدمی کی ۔ اور جنوب کی طرف سے قریش اپنے حلیفوں کی ایک بھاری جمیعت لے کر آگے بڑھے ۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بارہ ہزار تھی ۔ یہ حملہ اگر اچانک ہوتا تو سخت تباہ کن ہوتا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے بلکہ آپ کے خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے ، آپ کو دشمنوں کی نقل و حرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے ( یہ قوم پرست جتھوں کے مقابلے میں ایک نظریاتی تحریک کی فوقیت کا ایک اہم سبب ہوتا ہے ۔ قوم پرست جتھے صرف اپنی قوم کے افراد کی تائید و حمایت ہی پر انحصار رکھتے ہیں ۔ لیکن ایک اصولی و نظریاتی تحریک اپنی دعوت سے ہر سمت میں بڑھتی ہے اور خود ان جتھوں کے اندر سے اپنے حامی نکال لاتی ہے ۔ ) قبل اس کے کہ یہ جم غفیر آپ کے شہر پہنچتا ، آپ نے چھ دن کے اندر مدینہ کے شمال غربی رخ پر ایک خندق کھدوا لی اور کوہ سَلْع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی پناہ میں مدافعت کے لیے تیار ہو گئے ۔ مدینہ کے جنوب میں باغات اس کثرت سے تھے ( اور اب بھی ہیں ) کہ اس جانب سے کوئی حملہ اس پر نہ ہو سکتا تھا ۔ مشرق میں حرات ( لادے کی چٹانیں ) ہیں جن پر سے کوئی اجتماعی فوج کشی آسانی کے ساتھ نہیں ہو سکتی ۔ یہی کیفیت مغربی جنوبی گوشے کی بھی ہے ۔ اس لیے حملہ صرف اُحُد کے مشرقی اور مغربی گوشوں سے ہو سکتا تھا اور اسی جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا تھا ۔ یہ چیز سرے سے کفار کے جنگی نقشے میں تھی ہی نہیں کہ انہیں مدینے کے باہر خندق سے سابقہ پیش آئے گا ، کیونکہ اہل عرب اس طریق دفاع سے ناآشنا تھے ۔ ناچار انہیں جاڑے کے زمانے میں ایک طویل محاصرے کے لیے تیار ہونا پڑا جس کے لیے وہ گھروں سے تیار ہو کر نہیں آئے تھے ۔ اس کے بعد کفار کے لیے صرف ایک ہی تدبیر باقی رہ گئی تھی ، اور وہ یہ کہ بنی قُریظہ کے یہودی قبیلے کو غداری پر آمادہ کریں جو مدینہ طیبہ کے جنوب مشرقی گوشے میں رہتا تھا ۔ چونکہ اس قبیلے سے مسلمانوں کا باقاعدہ حلیفانہ معاہدہ تھا جس کی رو سے مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت کرنے کا پابند تھا ، اس لیے مسلمانوں نے اس طرف سے بے فکر ہو کر اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھجوا دیے تھے جو بنی قریظہ کی جانب تھیں اور ادھر مدافعت کا کوئی انتظام نہ کیا تھا ۔ کفار نے اسلامی دفاع کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا ۔ ان کی طرف سے بنی النَّضیر کا یہودی سردار حُیّی بن اَخْطَب بنی قُریظہ کے پاس بھیجا گیا تاکہ انہیں معاہدہ توڑ کر جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرے ۔ ابتداءً انہوں نے اس سے انکار کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے معاہدہ ہے اور آج تک کبھی ہمیں ان سی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن جب ابن اخطب نے ان سے کہا کہ دیکھو ، میں اس وقت عرب کی متحدہ طاقت اس شخص پر چڑھا لایا ہوں ، یہ اسے ختم کر دینے کا نادر موقع ہے ، اس کو اگر تم نے کھو دیا تو پھر دوسرا کوئی موقع نہ مل سکے گا ، تو یہودی ذہن کی اسلام دشمنی اخلاق کے پاس و لحاظ پر غالب آ گئی اور بنی قریظہ عہد توڑنے پر آمادہ ہو گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے سے بھی بے خبر نہ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بر وقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انصار کے سرداروں ( سعد بن غُبّادہ ، سعد بن مُعاذ ، عبداللہ بن رواعہ اور خَوّات بن جُبیر ) کو ان کے پاس تحقیق حال اور فہمائش کے لیے بھیجا ۔ چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ اگر بنی قُریظہ عہد پر قائم رہیں تو آ کر سارے لشکر کے سامنے علی ا لاعلان یہ خبر سنا دینا ۔ لیکن اگر وہ نقض عہد پر مصر ہوں صرف مجھ کو اشارۃً اس کی اطلاع دے دینا تاکہ عام مسلمان یہ بات سن کر پست ہمت نہ ہو جائیں ۔ یہ حضرات وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کو پوری خباثت پر آمادہ پایا اور انہوں نے برملا ان سے کہہ دیا کہ لا عقد بیننا وبین محمد ولا عھد ۔ ہمارے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی عہد پیما نہیں ہے ، ۔ اس جواب کو سن کر وہ لشکر اسلام میں واپس آئے اور اشارۃً حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر دیا :عَضَل وقارَہ ۔ یعنی قبیلہ عَضَل وقارَہ نے رَجیع کے مقام پر مبلغین اسلام کے وفد سے جو غداری کی تھی ، وہی کچھ اب بنی قریظہ کر رہے ہیں ۔ یہ خبر بہت جلدی مدینہ کے مسلمانوں میں پھیل گئی اور ان کے اندر اس سے سخت اضطراب پیدا ہو گیا ۔ کیونکہ اب وہ دونوں طرف سے گھیرے میں آ گئے تھے اور ان کے شہر کا وہ حصہ خطرے میں پڑ گیا تھا جدھر دفاع کا بھی کوئی انتظام نہ تھا اور سب کے بال بچے بھی اسی جانب تھے ۔ اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں اور انہوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حملے شروع کر دیے ۔ کسی نے کہا کہ ہم سے تو وعدے تو قیصر و کسریٰ کے ملک فتح ہو جانے کے کیے جا رہے تھے ، اور حال یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے ۔ کسی نے یہ کہہ کر خندق کے محاذ سے رخصت مانگی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ہمیں جا کر ان کی حفاظت کرنی ہے ۔ کسی نے یہاں تک خفیہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ حملہ آوروں سے اپنا معاملہ درست کرلو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کر دو ۔ یہ ایسی شدید آزمائش کا وقت تھا جس میں ہر اس شخص کا پردہ فاش ہو گیا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی نفاق موجود تھا ۔ صرف صادق و مخلص اہل ایمان ہی تھے جو اس کڑے وقت میں بھی فدا کاری کے عزم پر ثابت قدم رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک موقع پر بنی غطفان سے صلح کی بات چیت شروع کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ مدینے کے پھلوں کی پیداوار کا تیسرا حصہ لے کر واپس چلے جائیں ۔ لیکن جب انصار کے سرداروں ( سعد بن عُبادہ اور سعد بن مُعاذ ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط صلح کے متعلق مشورہ طلب کیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے کہ ہم ایسا کریں ؟ یا یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمارے لیے اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بچانے کے لیے یہ تجویز فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میں صرف تم لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کر رہا ہوں ، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سارا عرب متحد ہو کر تم پر پل پڑا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے توڑ دوں ۔ اس پر دونوں سرداروں نے بالاتفاق کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خاطر یہ معاہدہ کر رہے ہیں تو اسے ختم کر دیجیے ۔ یہ قبیلے ہم سے اس وقت بھی ایک حبہ خراج کے طور پر کبھی نہ لے سکے تھے جب ہم مشرک تھے ۔ اور اب تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا شرف ہمیں حاصل ہے ۔ کیا اب یہ ہم سے خراج لیں گے ؟ ہمارے اور ان کے درمیان اب صرف تلوار ہی ہے ، یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور ان کا فیصلہ کر دے ۔ یہ کہہ کر انہوں نے معاہدے کے اس مسودے کو چاک کر دیا جس پر ابھی دستخط نہ ہوئے تھے ۔ اسی دوران میں قبیلۂ غَطَفان کی شاخ اشجَع کے ایک صاحب نَعیم بن مسعُود مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبول اسلام کا علم نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو ( اسی موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اَلْحَرْبُ خُدْعَۃ ۔ یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے ۔ ) چنانچہ وہ پہلے بنی قُریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا ، اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آ کر واپس بھی جا سکتے ہیں ، ان کا کچھ نہ بگڑے گا ، مگر تمہیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے ، وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمہارا کیا بنے گا ۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصہ نہ لو جب تک ان باہر سے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمہارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں ۔ یہ بات بنی قریظہ کے دل میں اتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں ، بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کرلیں ۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا ۔ اس سے متحدہ محاذ کے لیڈر بنی قُریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انہوں نے قُرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں ، اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جانی چاہیے ، کل تم ادھر سے حملہ کرو اور ہم ادھر سے یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ بنی قُریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالہ نہ کر دیں ، ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے لیڈروں کو یقین آگیا کہ نعیم کی بات سچی تھی ۔ انہوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قُریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم کو ٹھیک مشورہ دیا تھا ۔ اس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی ۔ اب محاصرہ پچیس دن سے زیادہ طویل ہو چکا تھا ۔ سردی کا زمانہ تھا ۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے پانی اور غذا اور چارے کی فراہمی بھی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی تھی ۔ اور پھوٹ پڑ جانے سی بھی محاصرین کے حوصلے پست ہو چکے تھے ۔ اس حالت میں یکایک ایک رات سخت آندھی آئی جس میں سردی اور کڑک اور چمک تھی ، اور اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھائی دیتا تھا ۔ آندھی کے زور سے دشمنوں کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی ۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ نہ سہہ سکے ۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح جب مسلمان اٹھے تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فوراً ارشاد فرمایا: لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھٰذا ولکنکم تغزونھم ۔ یعنی اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے ۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ۔ یہ حالات کا بالکل صحیح اندازہ تھا ۔ قریش ہی نہیں ، سارے دشمن قبائل متحد ہو کر اسلام کے خلاف اپنا آخری داؤ چل چکے تھے ۔ اس میں ہار جانے کے بعد اب ان میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ مدینے پر حملہ آور ہونے کی جرأت کر سکتے ۔ اب حملے ( offensive ) کی قوت دشمنوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو چکی تھی ۔ غزوؤ بنی قریظہ : خندق سے پلٹ کر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں ، بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے ، ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہئے ۔ یہ حکم پاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اعلان فرمایا کہ جو کوئی سمع و طاعت پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا ۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ، لیکن یہ بدزبانی ان کو اس جرم عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انہوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ محاصرہ کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انہوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا کہ وہ قبیلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اسے فریقین مان لیں گے ۔ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس امید پر حکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اَوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور انہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قَیْنقُاع اور بنی النضیر کو نکل جانے دیا گیا تھا ۔ خود قبیلۂ اَوس کے لوگ بھی حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں ۔ لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ ابھی بھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نکل جانے کا موقع دیا تھا وہ کس طرح سارے گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے ۔ اور یہ معاملہ بھی ان کی سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نے عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کر کے اہل مدینہ کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا ۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل کر دیے جائیں ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے ، اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں ۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جنگ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غداروں نے پندرہ سو تلواریں ، تین سو زرہیں ، دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں فراہم کی تھیں ۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔ اس انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے معاملہ میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل حق تھا ۔ معاشرتی اصلاحات : جنگ اُحُد اور جنگ احزاب کے درمیان ، دو سال کا یہ زمانہ اگرچہ ایسے ہنگاموں کا زمانہ تھا جن کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو ایک دن کے لیے بھی امن اور اطمینان نصیب نہ ہوا ۔ لیکن اس پوری مدت میں نئے مسلم معاشرے کی تعمیر ، اور ہر پہلو میں زندگی کی اصلاح کا کام برابر جاری رہا یہی زمانہ تھا جس میں مسلمانوں کے قوانین نکاح و طلاق قریب قریب مکمل ہو گئے اور وراثت کا قانون بنا ، شراب اور جوئے کو حرام کیا گیا ، اور معیشت و معاشرت کے دوسرے بہت سے پہلوؤں میں نئے ضابطے نافذ کئے گئے ۔ اس سلسلے کا ایک اہم مسئلہ جو اصلاح کا تقاضا کر رہا تھا تَبْنِیتْ ( گود لینے یا بیٹا بنانے ) کا مسئلہ تھا ۔ عرب کے لوگ جس بچے کو متبنیٰ بنا لیتے تھے وہ بالکل ان کی حقیقی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا ۔ اسے وراثت ملتی تھی ۔ اس سے منہ بولی ماں اور منہ بولی بہنیں وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ منہ بولے باپ کے مر جانے کے بعد اس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسی کا نکاح حرام ہوتا ہے ۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منہ بولا بیٹا مر جائے یا اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ منہ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح سمجھی جاتی تھی ۔ یہ رسم قدم قدم پر نکاح اور طلاق اور وراثت کے ان قوانین سے ٹکراتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء میں مقرر فرمائے تھے ان کی رو سے جو لوگ حقیقت میں وراثت کے حق دار تھے یہ رسم ان کا حق مار کر ایک ایسے شخص کو دلواتی تھی جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا ۔ ان کی رو سے جن عورتوں اور مردوں کے درمیان رشتۂ نکاح حلال تھا ، یہ رسم ان کے باہمی نکاح کو حرام کرتی تھی ۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ اسلامی قانون جن بد اخلاقیوں کا سد باب کرنا چاہتا تھا ، یہ رسم ان کے پھیلنے میں مددگار تھی کیونکہ رسم کے طور پر منہ بولے رشتے میں خواہ کتنا ہی تقدُّس پیدا کر دیا جائے ، بہرحال منہ بولی ماں ، منہ بولی بہن اور منہ بولی بیٹی حقیقی ماں اور بیٹی کی طرح نہیں ہو سکتی ۔ ان مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدس پر بھروسہ کر کے مردوں اور عورتوں کے درمیان جب حقیقی رشتہ داروں کا سا خلا ملا ہو تو وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ان وجوہ سے اسلامی قانون نکاح و طلاق ، قانون وراثت اور قانون حرمت زنا کا یہ تقاضا تھا کہ متبنّیٰ کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کا قطعی استیصال کر دیا جائے ۔ لیکن یہ تخیل محض ایک قانونی حکم کے طور پر اتنی سی بات کر دینے سے ختم نہیں ہو سکتا تھا کہ ۔ ۔ منہ بولا رشتہ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے ۔ صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات اور اوہام محض اقوال سے نہیں بدل جاتے ۔ حکماً لوگ اس بات کو مان بھی لیتے کہ یہ رشتے حقیقی رشتے نہیں ہیں ، پھر بھی منہ بولی ماں اور منہ بولے بیٹے کے درمیان منہ بولے بھائی اور بہن کے درمیان ، منہ بولے باپ اور بیٹی کے درمیان ، منہ بولے خسر اور بہو کے درمیان نکاح کو لوگ مکروہ سمجھتے رہتے ۔ نیز ان کے درمیان خلا ملا بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا ۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ رسم عملاً توڑی جائے ، اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کو توڑیں ۔ کیونکہ جو کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہو ، اور اللہ کے حکم سے کیا ہو ، اس کے متعلق کسی مسلمان کے ذہن میں کراہت کا تصور باقی نہ رہ سکتا تھا ۔ اسی بنا پر جنگ احزاب سے کچھ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ آپ اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے خود نکاح کرلیں ، اور اس حکم کی تعمیل آپ نے محاصرۂ بنی قریظہ کے زمانہ میں فرمائی ۔ ( غالباً تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ عدت ختم ہونے کا انتظار تھا ، اور اسی دوران میں جنگی مصروفیات پیش آگئی تھیں ) ۔ نکاح زینب رضی اللہ عنہا پر پروپیگنڈے کا طوفان : یہ کام ہونا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان یکلخت اٹھ کھڑا ہوا ۔ مشرکین اور منافقین اور یہود سب آپ کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ۔ اُحُد کے بعد احزاب اور بنی قریظہ تک دو سال کی مدت میں جس طرح وہ زک پر زک اٹھاتے چلے گئے تھے اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں آگ لگ رہی تھی ۔ وہ اس بات سے بھی مایوس ہو چکے تھے کہ اب وہ کھلے میدان میں لڑ کر کبھی آپ کو زیر کر سکیں گے ۔ اس لیے انہوں نے اس نکاح کے معاملے کو اپنے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ اب ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس اخلاقی برتری کو ختم کر سکیں گے جو ان کی طاقت اور ان کی کامیابیوں کا اصل راز ہے چنانچہ یہ افسانے تراشے کہ ( معاذاللہ ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہو کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے ، بیٹے کو اس تعلق خاطر کا علم ہو گیا ، اس نے بیوی کو طلاق دے دی ، اور باپ نے اس کے بعد بہو سے بیاہ رچا لیا ۔ حالانکہ یہ بات صریحاً لغو تھی ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر آپ کے سامنے گزری تھی ۔ کسی وقت ان کو دیکھ کر عاشق ہو جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اصرار کر کے حضرت زید رضی اللہ عنہا سے ان کا نکاح کرایا تھا ۔ ان کا سارا خاندان اس پر راضی نہ تھا کہ قریش کے اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ایک آزاد کردہ غلام سے بیاہی جائے ۔ خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی اس رشتے سے ناخوش تھیں ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سب مجبور ہو گئے ، اور حضرت زید رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی شادی کر کے عرب میں اس امر کی پہلی مثال پیش کر دی گئی کہ اسلام ایک آزاد کردہ غلام کو اٹھا کر شرفائے قریش کے برابر لے آیا ہے ۔ اگر فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی میلان حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی جانب ہوتا تو زید بن حارِثہ سے ان کا نکاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، آپ خود ان سے نکاح کر سکتے تھے ۔ لیکن بے حیا مخالفین نے ان سارے حقائق کے موجود ہوتے یہ عشق کے افسانے تصنیف کیے ، خوب نمک مرچ لگا لگا کر ان کو پھیلایا اور اس پروپیگنڈے کا صور اس زور سے پھونکا کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ان کی گھڑی ہوئی روایات پھیل گئیں ۔ پردہ کے ابتدائی احکام : یہ بات کہ دشمنوں کے تصنیف کیے ہوئے یہ افسانے مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھنے سے بھی نہ رکے اس امر کی کھلی ہوئی علامت تھی کہ معاشرے میں شہوانیت کا عنصر حد اعتدال سے بڑھا ہوا تھا ۔ یہ خرابی اگر موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ذہن ایسی پاک ہستی کے متعلق ایسے بے سر و پا اور اس قدر گھناؤنے افسانوں کی طرف ادنیٰ التفات بھی کرتے ، کجا کہ زبانیں ان کو دہرانے لگتیں ۔ یہ ٹھیک موقع تھا جبکہ اسلامی معاشرے میں ان اصلاحی احکام کے نفاذ کی ابتدا کی گئی جو حجاب ( پردے ) کے عنوان سے بیان کیے جاتے ہیں ۔ ان اصلاحات کا آغاز اس سورے سے کیا گیا ، اور ان کی تکمیل ایک سال بعد سورۂ نور میں کی گئی ، جبکہ حضرت عائشہ پر بہتان کا فتنہ کھڑا ہوا ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورہ نور ، دیباچہ ) ۔ حضور کی خانگی زندگی کے معاملات: اسی زمانہ میں دو مسئلے اور بھی توجہ طلب تھے ۔ اگرچہ بظاہر ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی سے تھا ، مگر جو ذات اپنی جان خدا کے دین کو پروان چڑھانے کے لیے کھپا رہی تھی اور ہمہ تن اس کار عظیم میں منہمک تھی اس کے لیے خانگی زندگی کا سکون فراہم کرنا ، اور اس کو پریشانیوں سے بچانا ، اور اس کو لوگوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رکھنا بھی خود دین ہی کے مفاد کے لیے ضروری تھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نی سرکاری طور پر ان دونوں مسئلوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مالی حیثیت سے تنگ حال تھے ۔ ابتدائی چار سال تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذریعۂ آمدنی تھا ہی نہیں ۔ ٤ھ میں بنی النضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی متروکہ زمینوں کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا گیا ۔ مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبے کے لیے کافی نہ تھا ۔ ادھر منصب رسالت کے فرائض اتنے بھاری تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اور دل و دماغ کی ساری طاقتیں اور آپ کے اوقات کا ایک ایک لمحہ سونتے ڈال رہے تھے اور آپ اپنی معاش کے لیے ذرہ برابر بھی کوئی فکر یا کوشش نہ کر سکتے تھے ۔ ان حالات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات خرچ کی تنگی کے باعث آپ کے سکون طبع میں خلل انداز ہوتی تھیں تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن پر دہرا بار پڑ جاتا تھا ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیویاں موجود تھیں ۔ حضرت سَودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حَفْصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُمِّ سَلَمہ رضی اللہ عنھا ۔ اُمّ المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچویں بیوی تھیں ۔ اس پر مخالفین نے یہ اعتراض اٹھایا ، اور مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس سے شبہات ابھرنے لگے کہ دوسروں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع ٹھہرا دیا گیا ہے ، مگر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی ۔ موضوع اور مباحث : یہ مسائل تھے جو سُورۂ احزاب کے نزول کے زمانے میں پیش آئے تھے اور انہی پر اس سورے میں کلام فرمایا گیا ہے ۔ اس کے مضامین پر غور کرنے ، اور پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ پوری سورۃ ایک خطبہ نہیں ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو ، بلکہ یہ متعدد احکام و فرامین اور خطبات پر مشتمل ہے جو اس زمانہ کے اہم واقعات کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے نازل ہوئے اور پھر یکجا جمع کر کے ایک سورۃ کی شکل میں مرتب کر دیے گئے ۔ اس کے حسب ذیل اجزاء صاف طور پر ممیز نظر آتے ہیں ۔ ۱ ۔ پہلا رکوع غزوۂ احزاب سے کچھ پہلے نازل شدہ معلوم ہوتا ہے ۔ تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس رکوع کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے چکے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ضرورت کو محسوس فرما رہے تھے کہ متبنیٰ کے بارے میں جاہلیت کے تصورات اور اوہام و رسوم کو مٹایا جائے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ منہ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصورات رکھتے ہیں وہ اس وقت تک ہرگز نہ مٹ سکیں گے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑ دیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بنا پر سخت متردد تھے اور قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کہ اگر اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا تو اسلام کے خلاف ہنگامہ اٹھانے کے لیے منافقین اور یہود اور مشرکین کو ، جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں ، ایک زبردست شوشہ ہاتھ آ جائے گا ۔ اس موقع پر رکوع اول کی آیات نازل ہوئیں ۔ ۲ ۔ رکوع دوم و سوم میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ پر تبصرہ فرمایا گیا ہے ۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ یہ دونوں رکوع ان لڑائیوں کے بعد نازل ہوئے ہیں ۔ ۳ ۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے آیت ۳۵ تک کی تقریر دو مضامین پر مشتمل ہے ۔ پہلے حصہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو ، جو اس تنگی و عسرت کے زمانے میں بے صبر ہو رہی تھیں ، اللہ تعالیٰ نے نوٹس دیا ہے کہ دنیا اور اس کی زینت ، اور خدا و رسول اور آخرت میں سے کسی ایک کو انتخاب کر لو ۔ اگر تمہیں پہلی چیز مطلوب ہے تو صاف کہہ دو ، تمہیں ایک دن کے لیے بھی اس تنگی میں مبتلا نہ رکھا جائے گا بلکہ بخوشی رخصت کر دیا جائے گا ۔ اور اگر دوسری چیز پسند ہے تو صبر کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا ساتھ دو ۔ دوسرے حصے میں اس معاشرتی اصلاح کی طرف پہلا قدم اٹھایا گیا جس کی ضرورت اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ذہن اب خود محسوس کرنے لگے تھے ۔ اس سلسلہ میں اصلاح کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے کرتے ہوئے ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ تبرُّجِ جاہلیّت سے پرہیز کریں ، وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں سخت احتیاط ملحوظ رکھیں ۔ یہ پردے کے احکام کا آغاز تھا ۔ ٤ ۔ آیت ۳٦ سے ٤۸ تک کا مضمون حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضور صلی اللہ علی وسلم کے نکاح کے سلسلہ میں ہے ۔ اس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو مخالفین کی طرف سے اس نکاح پر کیے جا رہے تھے ، ان تمام شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی تھی ، مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ و مقام کیا ہے ، اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار و منافقین کے جھوٹے پروپیگنڈے پر صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ ۵ ۔ آیت ٤۹میں طلاق کے قانون کی ایک دفعہ بیان ہوئی ہے ۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً انہی واقعات کے سلسلے میں کسی موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ ٦ ۔ آیت ۵۰ ۔ ۵۲ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کا خاص ضابطہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان متعدد پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں جو ازدواجی زندگی کے معاملہ میں عام مسلمانوں پر عائد کی گئی ہیں ۔ ۷ ۔ آیت ۵۳ ۔ ۵۵ میں معاشرتی اصلاح کا دوسرا قدم اٹھایا گیا ۔ یہ حسب ذیل احکام پر مشتمل ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں غیر مردوں کی آمد و رفت پر پابندی ۔ ملاقات اور دعوت کا ضابطہ ۔ ازواج مطہرات کے بارے میں یہ قانون کہ گھروں میں صرف ان کے قریبی رشتہ دار آ سکتے ہیں ، باقی رہے غیر مرد ، تو انہیں اگر کوئی بات کہنی ہو یا کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے کہیں یا مانگیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں یہ حکم کہ وہ مسلمانوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ان میں سے کسی کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا ۔ ۸ ۔ آیت ۵٦ ۔ ۵۷ میں ان چہ میگوئیوں پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح اور آپ کی خانگی زندگی پر کی جا رہی تھیں اور اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمنوں کی اس عیب چینی سے اپنے دامن بچائیں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں ۔ نیز یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو درکنار ، اہل ایمان کو تو عام مسلمانوں پر بھی تہمتیں لگانے اور الزامات عائد کرنے سے کلی اجتناب کرنا چاہیے ۔ ۹ ۔ آیت ۵۹ میں معاشرتی اصلاح کا تیسرا قدم اٹھایا گیا ہے ۔ اس میں تمام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں سے اپنے آپ کو ڈھانک کر اور گھونگٹ ڈال کر نکلیں ۔ اس کے بعد آخر سورۃ تک افواہ بازی کی اس مہم ( Whispering Campaign ) پر سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے جو منافقین اور اراذل نے اس وقت برپا کر رکھی تھی ۔