Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۙ‏ ﴿1﴾
اے نبی! اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالٰی بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔
يايها النبي اتق الله و لا تطع الكفرين و المنفقين ان الله كان عليما حكيما
O Prophet, fear Allah and do not obey the disbelievers and the hypocrites. Indeed, Allah is ever Knowing and Wise.
Aey nabi Allah Taalaa say dartay rehna aur kafiron aur munafiqon ki baaton mein na aajana Allah Taalaa baray ilm wala aur bari hikmat wala hai.
اے نبی ! اللہ سے ڈرتے رہو ، اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مانو ۔ ( ١ ) بیشک اللہ بہت علم والا ، بڑا حکمت والا ہے ۔
اے غیب کی خبریں بتانے والے ( نبی ) ( ف۲ ) اللہ کا یوں ہی خوف رکھنا اور کافروں اور منافقوں کی نہ سننا ( ف۳ ) بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے ،
اے نبی! 1 اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو ، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے ۔ 2
اے نبی! آپ اللہ کے تقوٰی پر ( حسبِ سابق استقامت سے ) قائم رہیں اور کافروں اور منافقوں کا ( یہ ) کہنا ( کہ ہمارے ساتھ مذہبی سمجھوتہ کر لیں ہرگز ) نہ مانیں ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :1 جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں ، یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے چکے تھے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے ، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے ( زید رضی اللہ عنہ ) کی مطلقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے ۔ لیکن جس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں قدم اٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو ، جو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا ۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی ، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے ، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے ، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :2 تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا ۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے ، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلاف مصلحت ہے ۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو ۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین ۔
تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہوجائے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے ۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے ۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں ۔ کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا ۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بےپایاں حکمت سے اس کی کوئی بات کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچارہے ۔ جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں ۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے ۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے ۔