Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآٮِٕهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡ تُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿5﴾
لے پالکوں کو ان کے ( حقیقی ) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے پھر اگر تمہیں ان کے ( حقیقی ) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
ادعوهم لاباىهم هو اقسط عند الله فان لم تعلموا اباءهم فاخوانكم في الدين و مواليكم و ليس عليكم جناح فيما اخطاتم به و لكن ما تعمدت قلوبكم و كان الله غفورا رحيما
Call them by [the names of] their fathers; it is more just in the sight of Allah . But if you do not know their fathers - then they are [still] your brothers in religion and those entrusted to you. And there is no blame upon you for that in which you have erred but [only for] what your hearts intended. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
Lay palakon ko unn kay ( haqeeqi ) baapon ki taraf nisbat kerkay bulao Allah kay nazdeek poora insaf yeh hi hai. Phir agar tumhen unn kay ( haqeeqi ) baapon ka ilm hi na ho to woh tumharay deeni bhai aur dost hain tum say bhool chook mein jo kuch hojaye uss mein tum per koi gunah nahi albata gunah woh hai jiss ka tum irada dil say kero. Allah Taalaa bara hi bakhshney wala meharbaan hai.
تم ان ( منہ بولے بیٹوں ) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو ۔ ( ٤ ) یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے ۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں ۔ ( ٥ ) اور تم سے جو غلطی ہوجائے اس کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ، البتہ جو بات تم اپنے دلوں سے جان بوجھ کر کرو ، ( اس پر گناہ ہے ) بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔ ( ٦ )
انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو ( ف۹ ) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں ( ف۱۰ ) تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشریت میں تمہارے چچا زاد ( ف۱۱ ) اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو نادانستہ تم سے صادر ہوا ( ف۱۲ ) ہاں وہ گناہ ہے جو دل کے قصد سے کرو ( ف۱۳ ) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کی نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے 8 اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں 9 نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے ، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرتے کرو 10 اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے 11
تم اُن ( منہ بولے بیٹوں ) کو ان کے باپ ( ہی کے نام ) سے پکارا کرو ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے ، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو ( وہ ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں ۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن ( اس پر ضرور گناہ ہوگا ) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو ، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :8 اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمد کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا ۔ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمد کہتے تھے ۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہنے لگے ۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے ۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام ۔ جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا ‘ درآنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے ‘ اس پر جنت حرام ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں ۔ جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :9 یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :10 مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اسی طرح ماں ، بیٹی ، بہن ، بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو ان رشتوں کی ہے ، اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو ان رشتہ داروں کے ہیں ، اور اس کے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ یقیناً قابل اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :11 اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا ۔ ان پر اب کوئی باز پرس نہ ہو گی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نادانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے ۔ اگر بلا ارادہ کوئی ایسی بات کی جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو ، مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو ، تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالیٰ سزا نہ دے گا ۔